تحقیق

( تَحْقِیق )
{ تَح + قِیق }
( عربی )

تفصیلات


حقق  تَحْقِیق

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٢٨ء کو 'شرح تمہیدات ہمدانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَحْقِیقات [تَح + قی + قات]
١ - صحیح و درست، سچ مچ، ٹھیک، واقعی طور پر۔
 ہم نے اب جانا کہ جو کہتی تھی سچ کہتی تھی خلق بات تھی تحقیق اپنے دل سے وہ گھڑتی نہ تھی      ( ١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ١٦٤:٢ )
٢ - تصدیق۔
'حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب ان مساجد کی تجدید کی تھی تو اہل مدینہ سے اس کی تحقیق کر لی تھی۔"      ( ١٩٢٤ء، سیرۃ النبی، ٩٤:٢ )
٣ - ثبوت۔
'ملعون رونے لگا اور عرض کیا یہ خیال محال ہرگز میرے دل سوں نہیں اور اگر تحقیق ہے پس حکم ہوئے کہ دونوں پانو میرے کاٹیں۔"      ( ١٧٣٣ء، کربل کتھا، ٨١ )
٤ - دراصل، درحقیقت۔
 حرم سے دیر گئے، دیر سے حرم آئے کہیں خبر تری تحقیق ہم نے پائی نہیں      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، بادۂ عرفان، ٦١٣ )
٥ - یقین۔
 رہنمائی اپنی کر توفیق دے آشنائی دے مجھے تحقیق دے      ( ١٧٧٤ء، مثنوی ریاض العارفین، ٥ )
٦ - ضرور، بے شک، یقیناً۔
مضمون آیۃ کریمہ کا کہ تحقیق ہم نے تیرے تئیں زمین کے اوپر بادشاہ کیا۔"      ( ١٨٠٥ء، جامع الاخلاق، ٢٩٠ )
٧ - چھان بین، پہچان، صادق تلاش یا جستجو، حالات و واقعات کا معلوم کرنا اور بیان کرنا۔
'جہاں تک کہ سچے مذہب کی میں تحقیق کر سکا میں نے اسلام ہی کو سچا مذہب پایا۔"      ( ١٨٦٠ء، خطبات احمدیہ، ٨ )
٨ - کھوج، سراغ، تلاش۔
 مکان کس طرح تحقیق ہو خانہ بدوشوں کا فغاں کا گھر نہ پوچھو آشیاں عنقا نہیں رکھتا      ( ١٧٧٢ء، فغاں، دیوان، ٨٥ )
٩ - دریافت، پوچھ کچھ۔
'یہ تو دعویٰ ہے مگر جب کرو اس کو تحقیق، پاؤ گے نام ہیں سب چھوٹے لقب ہیں بے جا۔"      ( ١٨٦٦ء، تہذیب الایمان، ٢٦٥ )
١٠ - (قواعد و ضوابط کے دائرے میں) جانچ، امتحان، تجربہ۔
 کم نکلے بندے وہ خدا کے ہوں جو حرص و ہوا سے پاک کی گئی جب تحقیق دلوں کی ہر گھر اک بت خانہ تھا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٦٠ )
متعلق فعل
١ - یقینی طور پر، بالیقین۔
'مگر اتنا تحقیق معلوم ہے کہ وہ اپنی حالت کے مناسب انگریزی جاننے کے لیے بہتیری ہی کوشش کرتا تھا۔"      ( ١٨٨٨ء، ابن الوقت، ٧ )
  • for a fact
  • truly
  • indeed
  • certainly