پلپلا

( پِلْپِلا )
{ پِل + پِلا }
( فارسی )

تفصیلات


پِلپِل  پِلْپِلا

فارسی میں اسم 'پِلْپِل' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت لاحقۂ صفت 'ا' لگنے سے 'پلپلا' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سےپہلے ١٨٨٠ء کو "فسانہ آزاد" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : پِلْپِلی [پِل + پِلی]
واحد غیر ندائی   : پِلْپِلے [پِل + پِلے]
جمع   : پِلْپِلے [پِل + پِلے]
جمع غیر ندائی   : پِلْپِلوں [پِل + پِلوں (و مجہول)]
١ - جوبالائی سطح کے اندر سے بہت نرم یا ملائم ہو، لجلجا؛ گھلا ہوا۔
"ورم ڈھیلا اور پلپلا ہوتا ہے، رنگ سفید ہوتا ہے۔"      ( ١٩٣٦ء، شرحِ اسباب (ترجمہ)، ٢٤٠:٢ )
٢ - [ مجازا ]  ڈرپوک، کم ہمت، ڈھیلے ڈھالے جسم والا (شخص)
"پستول ایک خطرناک چیز ہے مگر جب یقین ہو جائے کہ یہ کسی پلپلے آدمی کے ہاتھ میں ہے تو اس کا ڈر ور کچھ نہیں رہتا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٤٦:٦ )