ابسا

( اُبْسا )
{ اُب + سا }
( پراکرت )

تفصیلات


اُبَسْنا  اُبْسا

پراکرت کے لفظ "اُبَسّ" کے ساتھ "نا" علامت مصدر لگایا گیا اور یوں اردو میں داخل ہوا، اور "ابسنا" مصدر سے حالیہ تمام "ابسا" مشتق ہے، اور اردو میں سب سے پہلے ١٩٢٨ء میں "اودھ پنچ" لکھنؤ میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اُبْسی [اُب + سی]
واحد غیر ندائی   : اُبْسے [اُب + سے]
جمع   : اُبْسے [اُب + سے]
جمع غیر ندائی   : اُبْسوں [اُب + سوں (و مجہول)]
١ - سڑا بسا، گلا سڑا، (مجازاً) خراب، برا
"خدا کرے خالی خولی محبت جتانے والے . اپنا سڑا ابسا مضمون چھپوانے والے ہمدردوں کے علاوہ اسے نقد خریدار مل جائیں"۔      ( ١٩٢٨ء، 'اودھ پنچ' لکھنؤ، ٦،٧:٣ )