اجڑنا

( اُجَڑْنا )
{ اُجَڑ + نا }
( ہندی )

تفصیلات


اُجاڑْنا  اُجَڑْنا

ہندی زبان سے مصدر 'اجاڑنا' سے فعل لازم ہے۔ اردو میں ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - ٹوٹا پھوٹا ہونا، خراب یا خستہ ہونا، ویران، خالی یا غیر آباد ہونا۔
 گھر کا نام خاک لوں بن کے یہ بگڑ چکا اس پہ اوس پڑ چکی، مٹ چکا، اجڑ چکا      ( ١٩٢٥ء، عالم خیال، ٨ )
٢ - آوارہ یا بے گھرا ہونا۔
 چین کعبے میں بھی دم بھر نہ میسر ہو گا ایسے اجڑے ہیں کہ تربت میں بس اب گھر ہو گا      ( ١٨٩٤ء، سجاد رائے پوری (ق)، ٩ )
٣ - (کھیتی یا باغ کا) خشک ہونا، پامال ہونا۔
 مرے دل میں نیل سا پڑ گیا مرے جی سے چین بچھڑ گیا مرے بھاویں باغ اجڑ گیا مرے جانثار نے غش کیا
٤ - تباہ حال، پریشان روزگار ہونا۔
 پڑے موت کو موت اجڑ جائے وہ مرے بدلے مٹی میں گڑ جائے وہ      ( ١٩١٠ء، قاسم و زہرہ، ٨٢ )
٥ - غائب ہونا، آنکھوں سے اوجھل ہونا۔
"سب کی سب کہاں اجڑ گئیں کوئی دکھائی نہیں دیتی۔"      ( ١٩٢٩ء، نوراللغات، ٣٧٣:١ )