بھاگنا

( بھاگْنا )
{ بھاگ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


بھاج  بھاگْنا

سنسکرت میں اصل لفظ 'بھاج' سے ماخوذ اردو زبان میں 'بھاگ' مستعمل ہے اس کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگنے سے 'بھاگنا' بنا اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے ١٥٦٤ء میں حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - دوڑنا، تیز قدموں سے چلنا، عجلت سے جانا، فرار ہونا۔
"یہ کوشش ناکام ہوئی اور سعادت علی خاں بھاگ کر آگرہ پہنچے۔"      ( ١٩٥٦ء، بیگمات اودھ، ٥٢ )
٢ - پہلو بچانا، کترانا، بچنا۔
"لکھنے سے کیوں بھاگتا ہوں"      ( ١٩٣٥ء، مضامین فرحت، ٢:٣ )
٣ - محو ہوجانا، مٹ جانا۔
 اوڑنے میں ہوا سے جائے آگے طرہّ یہ کہ بھوک پیاس بھاگے      ( ١٨٨١ء، مثنوی نیرنگ خیال، ٤٢ )
٤ - منحرف ہونا، روگردان ہونا، پھرجانا، مخالف ہونا۔
"میں سمجھتی ہوں کہ تو ابھی تک ہمارے دین سے بھاگا ہوا ہے۔"      ( ١٨٩٨ء، دعوت اسلام، ٢٨ )
٥ - (عورت کا) اغوا کرلیا جانا، غائب ہوجانا، چھپ جانا، غیر اخلاقی یا غیر قانونی طور پر چھپ کر چلا جانا۔
"کہیں گھر سے بھاگ کر تو نہیں آیا۔"      ( ١٩٢٤ء، پنجاب میل، ٥٩ )
٦ - ہمت ہارنا، شکست مان لینا، بزدلی دکھانا۔
"ذمہ داریوں کے بوجھ سے ڈرکر دنیا سے بھاگ نہ نکلے۔"      ( ١٩٢٣ء، احیاء ملت، عزمی، ٤١ )
٧ - ہٹنا، جگہ چھوڑنا؛ دور ہونا، دور چلا جانا۔
"جس بیان کو اصل مطلب کے پہلے شروع کیا وہاں سے بھاگ کر مدعا بیان کرنے لگا۔"      ( ١٨٦٣ء، انشائے بہار بے خزاں، غلام امام، ٥ )
٨ - بیزار و پریشان ہو کر ایک دم چلا جانا؛ عاجز آکر یکایک چلا جانا؛ قیام ترک کر دینا۔
"ایک سال ہی میں میں وہاں سے بھاگ لیا۔"      ( ١٩٦٢ء، گنجینۂ گوہر، ٢٦٤ )
٩ - آزاد ہونا، چھوٹ جانا، چھٹکارا پانا، رہا ہونا۔
"گنگا بائی میں نے تمہاری نصیحت مان لی ہوتی اور اس مصیبت سے بھاگ نکلتی کہ میرے دماغ کو تو سکون ہو جاتا۔"      ( ١٩٤٦ء، جھانسی کی رانی، ١٥٢ )