بھبکا

( بَھبْکا )
{ بَھب + کا }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان میں بطور اسم مستعمل ہے اردو میں ہندی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو رسم الخط میں مستعمل ہے۔ ١٨٨٢ء میں "طلسم ہو شربا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بَھبْکے [بَھب + کے]
جمع   : بَھبْکے [بھب + کے]
جمع غیر ندائی   : بَھبْکوں [بَھب + کوں (واؤ مجہول)]
١ - عرق کھینچنے یا شراب کشید کرنے کا آلہ، قرنبیق۔
"بھپکے چڑھ گئے شراب کھچنے لگی۔"      ( ١٨٨٢ء، طلسم ہوشربا، ٩٦:٦ )
٢ - معمول سے بڑا اور سڈول چوڑے منہ کا آبخورہ۔
"گرمی کے موسم میں . مٹکے ٹھلیاں، جھجریاں، بھبکے کاغذی آبخورے پانی سے بھر کر رکھے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٣٣ء، فراق، مضامین، ٤٦ )
٣ - لو، شعلہ، لپٹ، بھبک۔
"برہمن نے . ایک بکٹا بیہوشی کا اس مشعل پر ڈال دیا کہ یکایک بھبکا نکلا۔"      ( ١٨٨٢ء، طلسم ہوشربا، ٧٧٨:١ )
٤ - تیز بو کی لپٹ، بھبک۔
 ابے کیا کالا پانی پی کے آیا ہے تو بھٹی سے یہ کیسے آتے ہیں بھپکے ابے مرد ک ابے گرگے      ( ١٩٢٨ء، مرقع لیلٰی مجنوں، ٩٨ )