بھٹکنا

( بَھٹَکْنا )
{ بَھٹَک + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


بھرشٹک  بَھٹَکْنا

سنسکرت میں اصل لفظ 'بھر شٹک' سے ماخوذ اردو زبان میں 'بھٹک' مستعمل ہے اس کے ساتھ اردو لاحقۂ مصدر 'نا' لگنے سے 'بھٹکنا' بنا اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے ١٧٧٢ء میں 'فغاں' کے "انتخاب" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - بہکنا، راہ سے بے راہ ہونا۔
"جو کوئی دنیا میں (دل کا) اندھا تھا وہ آخرت میں اندھا ہے اور راستہ سے بہت بھٹکا ہوا۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٦٤٨:٤ )
٢ - سرگشتہ ہونا، سرگرداں ہونا، (جستجو میں) ادھر ادھر گھومنا۔
 بھٹکی ہوئی پھرتی ہیں غربیوں کی دعائیں برگشتگئی بخت سے ہے باب اثر بند      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٨٤ )
٣ - [ مجازا ]  جستجو میں رہنا، ڈھونڈنا۔
 تشنہ اب مت چھوڑ اب تیغ قاتل سے مجھے روح بھی بھٹکے گی میری بعد مردن آب میں      ( ١٨٤٠ء، نصیر، چمنستان سخن، ١٣٥ )
٤ - محروم ہونا، رسائی حاصل نہ کرنا۔
 ٹکڑوں سے میں بھٹکتی فاقوں سے خواہ مرتی میں جانتی جو ایسا شادی کبھی نہ کرتی      ( ١٩٢١ء، گورکھ دھندا، ٤٨ )
٥ - خواہش کرنا، چاہنا۔ (جامع اللغات، 538:1، پلیٹس)