پنپنا

( پَنَپْنا )
{ پَنَپ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پانیہَّ+پا  پَنَپْنا

سنسکرت میں فعل 'پانیہَّ + پا' سے ماخوذ 'پنپنا' اردو میں بطور فعل مستعمل ہے سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - (پودے کا) بڑھنا، لہلہانا، نشوونما پانا، سرسبز ہونا، جوبن پر آنا، پھلنا اور پھولنا نیز مرجھانے اور کملانے کے بعد از سرِ نو ہرا ہونا۔
"ان کی مثال اسی کھیتی کی سی ہے جو . ایک ننھی سی سوئی کی شکل میں نکلے پھر برتھی اور پنپتی ہوئی اپنے سہارے کھڑی ہو جائے۔"      ( ١٩٢٦ء، غلبۂ روم، ١٩٦ )
٢ - مرض سے صحت پانا، صحت مند ہونا، (لاغری سے) فربہی آنا۔
"تربیت کے خوان پرجوبے شمار غذائیں چُنی ہیں، ذہن ان سب کو کھا کر پنپ نہیں سکتا۔"      ( ١٩٣٦ء، تعلیمی خطبات، ١٣٧ )
٣ - رنج و غم یا انقباض سے چھوٹنا، صعوبت یا کلفت نکلنا، نجات پانا، دل شاد ہونا، خوش دل ہونا۔
"لکھنؤ کے سفر سے ابھی پنپا نہیں ہوں۔"      ( ١٩١٣ء، مکاتیبِ مہدی، ٢٧٨ )
٤ - (صدمے یا نقصان کے بعد) سنبھلنا، ہوش میں آنا، پھر سے کھوئی ہوئی طاقت وغیرہ حاصل کرنا۔
"جو خاندان کہ تباہ وہ برباد ہوئے ہیں ان کا جلد پنپنا آسان نہیں۔"      ( ١٩٣٦ء، راشدالخیری، عالمِ نسواں، ٥ )
٥ - عروج پانا، ترقی کرنا (بیشتر خستہ حالی اور تنزل کے بعد)۔
"مسلمانوں کا پنپنا اور ہندوستان میں عزت سے رہنا دشوار ہے۔"      ( ١٩٣٨ء، حالاتِ سر سید، ٣٥ )
٦ - (مقابلے میں) سراٹھانا، ابھرنا، غلبہ پانا۔
"عشق . کے بھی جراثیم ہوتے ہیں مگر اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ دوسرے امراض کے جراثیم ان کو پنپنے نہیں دیتے۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٤٠:٣ )