بھولنا

( بُھولْنا )
{ بُھول + نا }
( ہندی )

تفصیلات


بھول  بُھولْنا

ہندی زبان سے ماخوذ اسم 'بھول' کے ساتھ اردو لاحقۂ مصدر 'نا' لگنے سے 'بھولنا' بنا اردو میں بطور مصدر متعدی اور گا ہے بطور مصدر لازم بھی مستعمل ہے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - فراموش ہو جانا، ذہن سے اتر جانا۔
"مجھے تو اس آدمی کی صورت نہیں بھولتی جو چھ مہینے سے بیمار پڑا تھا"      ( ١٩٣٢ء، میدان عمل، ٣١ )
٢ - (پر کے ساتھ) بھروسہ کرنا؛ مغرور ہونا؛ فریب کھانا۔
 عہدو پیماں پر زمانے کے نہ بھولو دوستو نقض عہد اس کی ہے عادت، بے وفا ہے اس کا نام    ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٥٨٤ )
٣ - نازاں ہوتا، اترانا۔
 جو بن پہ اپنے بھولے ہیں اشجار نو بہار ہاتھوں میں سب کے آئینۂ گل ہے شاخ شاخ    ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٥٩ )
٤ - فریفتہ ہونا، ریجھنا۔
 میاں جوگی نہ بھولو رنڈی پر کہ وفا کب ہے ان کو مدنظر      ( ١٧٩١ء، حسرت، طوطی نامہ، ١٢٦ )
فعل متعدی
١ - فراموش کرنا، بھلا دینا۔
 بھول نا جانا یاد ہماری بھول کے ہم کو یاد نہ کرنا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٢٩ )
٢ - نظر انداز کرنا۔
" 'پا انداز کو مت بھولو' کمرے میں آنے سے پہلے اپنے بوٹ رگڑ لو"      ( ١٩٠٨ء، محمدی بیگم، پھول (انتخاب)، ١٦١ )
  • فَراموشی