بیٹھنا

( بَیٹْھنا )
{ بَیٹھ (یائے لین) + نا }
( ہندی )

تفصیلات


بیٹھ  بَیٹْھنا

ہندی زبان سے ماخوذ لفظ 'بیٹھ' کے ساتھ اردو لاحقۂ مصدر 'نا' لگنے سے 'بیٹھنا' بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ ١٥٠٣ء میں 'نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - (کسی جگہ) نشست ہونا، پاؤں اور چوتڑ ٹکانا۔
 رن کی جانب جو سواری علی اکبر کی چلی تھام کر ہاتھوں سے دل بیٹھ گئے سبط نبی      ( ١٩٧٩ء، مراثی فیض، ٣٠:٢ )
٢ - صحبت جمانا، (صحبت میں) شریک ہونا۔
'میری صحبت میں نہ بیٹھو۔"      ( ١٩٢٩ء، 'اودھ پنچ' لکھنؤ، ١٤، ١٦:١٠ )
٣ - تھکنا، تھک کر پڑ رہنا، ہمت پست ہونا، مضمحل ہو جانا۔
'بیچارے پر بیوی کے مرنے کا ایسا صدمہ ہوا کہ بیٹھ گیا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٥٢:٧ )
٤ - گرنا، منہدم ہونا، مسمار ہو جانا، دھنسنا۔
"کڑیوں کے ٹوٹ جانے سے جا بجا چھت بھی بیٹھ گئی تھی۔"      ( ١٩٣٢ء، گوشۂِ عافیت، ٢٣:١ )
٥ - (دیکھ بھال یا نگرانی کے لیے) مقرر ہونا، متعین کیا جانا۔
"تحقیقات کے لیے کمیشن بیٹھا۔"      ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ٦٥ )
٦ - (ایک چیز کا دوسری چیز پر) رکھا جانا، لگایا جانا، جمنا۔
 اونچی ہو زمیں خاک صفائی نہ ملے گی بت طاق پہ بیٹھے تو خدائی نہ ملے گی      ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١٩٩:٧ )
٧ - ٹکر کھانا، گڑنا، لگنا، چبھنا (کسی دھار والی چیز کا)۔
"تپائی کا کیلا ان کے بازو میں بیٹھا۔"      ( ١٩٢٣ء، اہل محلہ اور نا اہل پڑوسی، ٣٧ )
٨ - استقامت یا قرار پکڑنا، ایک جگہ جم کر رہنا، جگہ سے حرکت نہ کرنا۔
 آوارگی نصیب میں ہے اپنے ناصحا بیٹھیں گے دل لگا کے کہاں دلربا سے ہم    ( ١٩١٩ء، سید احمد دہلوی، بیاض نسیم، ١١ )
٩ - کسی بات کا قائم و مستقل ہو جانا، ناقابل تغیر ہونا، اٹل ہونا۔
 اب بر آتی ہے تمنا دل مضطر کی کہاں اس ستمگر کی زباں پر تو نہیں بیٹھ گئی    ( ١٨٧٢ء، نظام، کلیات، ٣٩٨ )
١٠ - صحیح اور موزوں مقام پر رکھا جانا۔
"زخم اچھا ہو گیا مگر ہڈی کا جوڑ ٹھیک نہ بیٹھا۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ٣٤٩ )
١١ - ثبت ہونا، جم جانا (بیشتر نقش وغیرہ کے ساتھ)۔
"کائنات کی بے حقیقی کا نقش شروع ہی سے دل پر بیٹھ گیا تھا۔"      ( ١٩٤٢ء، انشائے ماجد، ٢٣٥:٢ )
١٢ - جاگزیں ہونا، راسخ ہونا، (رگ و پے میں) اتر جانا، سرایت کرنا۔
"ٹھنڈ کی اس رو کو بیس دن ہو چکے تھے اور وہ کسی طرح ٹلنے کا نام نہ لیتی تھی وہ اس کی ہڈی ہڈی میں بیٹھی چلی جاتی تھی۔"      ( ١٩٤٢ء، جزیرے، ٢٢٢ )
١٣ - (مادی طور پر) دب جانا، (ابھری ہوئی شے کا) ابھرنے اور پھیلنے سے رک جانا، ابھری ہوئی چیز کا پچک جانا۔
"وہ اپنے سوکھے ہوئے ہاتھ سے اپنی دھنسی ہوئی آنکھیں بیٹھے ہوئے گال اور ابھرے ہوئے گلے کو آہستہ آہستہ سہلانے لگے۔"    ( ١٩٥٨ء، خون جگر ہونے تک، ٢٩٣ )
١٤ - دب جانا، فرو ہونا۔
"ہندی اردو کا فساد کئی بار اٹھا اور بیٹھ بیٹھ گیا۔"    ( ١٩٣٩ء، خطبات عبدالحق، ١٤٥ )
١٥ - (تخت مسند یا جگہ پر) متمکن ہونا (مجازاً)؛ منصب یا اعزاز پانا، حاکم یا والی بننا۔
"علاؤالدین خلجی - جب تخت پر بیٹھا، خزانوں کے منھ کھول دیے۔"    ( ١٨٨٤ء، قصص ہند، ٢٧:١ )
١٦ - جانشین ہونا یا نائب ہونا، کسی کا منصب یا اعزاز پانا۔
 اٹھے جہاں سے جب یہ محمد کے نور عین بیٹھے علی کے تخت پر جعفر بزیب و زین    ( ١٩٣٨ء، رموز عیب، ٥٧ )
١٧ - (کاروبار کا) تباہ ہونا، ٹھپ ہو جانا، ناکامی کے ساتھ ختم ہو جانا۔
'وہی - میرے دشمن ہیں جن کی وجہ سے میرا کارخانہ بیٹھا جا رہا ہے۔"      ( ١٩٦٣ء، معصومہ، ٢٢٧ )
١٨ - کنوارا رہنا۔
"اگر آپ میں سے کسی کے ساتھ شہزادی کی شادی نہ ہوئی تو تمام زندگی وہ اسی طرح بیٹھی رہیں گی۔"      ( ١٩٦٣ء، ساڑھے تین بار، ٩٤ )
١٩ - دخل نہ دینا، خاموش رہنا۔
"تاریک نے کہا، چھوکرے بیٹھ - میں سمجھ لوں گی۔"      ( ١٨٩٢ء، طلسم ہوشربا، ٤٦٥:٦ )
٢٠ - رک جانا، کام پر نہ آنا، حاضر نہ ہونا۔
"ماما گئی بیٹھ، بیٹی کو چولھے پاس جانا قسم - آٹا گوندھا کیا سوندھ ساندھ تندور پر بھیج دیا۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٠٥ )
٢١ - رہ پڑنا۔
"قمرالحسن شادی کے بعد بالکل آزاد ہو گئے تھے - بیوی کا میکے بیٹھنا گویا سونے پر سہاگا ہو گیا۔"      ( ١٩٣٩ء، شمع، اے آر خاتون، ٣٥٢ )
٢٢ - توقف کرنا۔
 آج کل بیقرار ہیں ہم بھی بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٢٨٢ )
٢٣ - مطمئن ہونا، دم لینا، سکون پانا۔
"غور کر کے دیکھیے تو سرد مہر زمانہ کتنوں کو مٹا کے بیٹھا ہے اور خدا جانے کتنوں کو بگاڑے گا۔"      ( ١٩٢٣ء، مضامین شرر، ٤٢:١ )
٢٤ - گلتھی ہو جانا، کھلا ہوا نہ رہنا (چاول کے لیے)۔
"چاولوں کو جو میں نے دیکھا تھا تو بیٹھ گئے تھے۔"      ( ١٨٦٨ء، مرآۃ العروس، ٢٠٧ )
٢٥ - (درسگاہ میں) داخل ہونا، بھرتی ہونا؛ کام سیکھنے کے لیے کسی استاد کے حوالے کیا جانا جیسے : نازو جب سے درزی کے پاس بیٹھا ہے وقت کا بہت پابند ہو گیا ہے۔
"حسن آرا مکتب میں بیٹھی تو گیارہویں برس میں تھی۔"      ( ١٨٧٣ء، بنات النعش، ٢٧١ )
٢٦ - سوار ہونا۔
"سرکار بیٹھ گئے، ریل چھوٹی۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٧٧٥:١ )
٢٧ - وضع ہونا، مرتب ہونا، درست ہونا۔
"مسلمانوں میں سلطنت کا اسلوب کچھ بیٹھا نہ تھا کہ ان قیدیوں کا معاملہ پیش آیا۔"      ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ضمیمہ (حاشیہ)، ١٢٠ )
٢٨ - (آواز کا) گلے میں پھنس کر اور بھرا کر معمول سے دھیما نکلنا (گلے یا آواز کے ساتھ)۔
"بعض کہتے تھے کہ کسی دشمن نے اس کو کچھ کھلا دیا جس سے اس کی آواز بیٹھ گئی۔"      ( ١٩٦٦ء، نیاز فتح پوری، جمالستان، ٣١٩ )
٢٩ - ڈوب جانا، پانی میں تہ نشین ہونا۔
 بیٹھتے دیکھے حباب آسا جہاز ڈوبتے دیکھے سفینے بارہا      ( ١٩٢٠ء، روح ادب، ٥٢ )
٣٠ - آس لگانا، بھروسا رکھنا (پر کے ساتھ)۔
 قیامت میں تو ہی اٹھائے گا اس کو یہ بیٹھی ہے ساری خدائی تجھی پر      ( ١٩١١ء، نذر خدا، ٦٢ )
٣١ - بستہ یا منجمد ہونا (دھات کے لیے)۔
 سبک ساروں سے نسبت کون سی ہے برد باروں کو کہ چاندی کی طرح پارا نہ بیٹھا ہے نہ بیٹھے گا      ( ١٨٤٠ء، دیوان شہیدی، ٢٥ )
٣٢ - گوشہ نشین ہو جانا۔
 نظر کہیں نہیں اب آتے حضرت ناصح سنا ہے گھر میں کسی مہ لقا کے بیٹھ گئے      ( ١٩٣٣ء، صوت تغزل، ٢١٥ )
٣٣ - زندہ رہنا، دنیا سے نہ اٹھنا۔
"جب تک ان کی تقدیر کا آب و دانہ ہے بیٹھی ہیں۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٣٠ )
٣٤ - رہنا سہنا، بسر کرنا۔
"جب تک وہ گلدستہ پژمردہ نہ ہو تب تک جاننا کہ میری بیوی حرمت و عصمت سے بیٹھی ہے۔"      ( ١٨٠١ء، طوطا کہانی، ١٧ )
٣٥ - بیکار رہنا، بے عمل ہونا۔
"ہونہار جوانوں کو اقبال نے بیٹھنے نہ دیا۔"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٥٧٣ )
٣٦ - حاصل ہونا، وصول ہونا، وزن یا تول میں زیادہ پورا یا کم اترنا۔
"دس سیر کا نو سیر بیٹھا۔"      ( ١٨٨٨ء، فرہنگ آصفیہ، ٤٦١:١ )
٣٧ - سطح پر جمنا۔
"اب کوئی ایسا پتھر اٹھاؤ جس پر کائی بیٹھ چکی ہو۔"      ( ١٩٦٣ء، تجزیۂ نفس، ٤٥ )
٣٨ - صبر کرنا، ضبط سے کام لینا۔
"کہاں تک بیٹھے۔"      ( ١٨٨٨ء، فرہنگ آصفیہ، ٤٦١:١ )
٣٩ - سکونت اختیار کرنا، مستقل قیام کرنا۔
"ایک عرصے تک لکھنؤ میں رہے پھر محلہ دو گانواں میں بیٹھ رہے۔"
٤٠ - پڑنا، اثرانداز ہونا۔
"پورب رخ کے مردنگیوں سے ایک کا انگوٹھا نہیں ہے جس سے سم پرتھاپ پوری نہیں بیٹھتی۔"      ( ١٨٠١ء، مادھونل، ٢٨ )
٤١ - لاگت آنا، خرچ پڑنا۔
"محرم کے مسالے میں دو سو روپے بیٹھے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٧٧٦:١ )
٤٢ - بیکار یا بے روزگار ہونا۔ (نوراللغات، 776:1)
٤٣ - سما جانا، اندر کو اتر جانا، جیسے کنویں کی کوٹھی کا بیٹھنا، قبر کا بیٹھ جانا۔
 ہزار بار بنی قبر اور بیٹھ گئی نشان ضعف ہیں اپنے غبار سے پیدا      ( ١٨٩١ء، نعشق، گلزار نعشق، ٦ )
٤٤ - انڈے سینا۔
"ہماری مرغی کو بیٹھے ہوئے پندرہ دن ہو چکے ہیں پانچ چھ دن میں بچے نکل آئیں گے۔"      ( ١٩٦٠ء، مہذب اللغات، ٤٣٤:٢ )
٤٥ - اکثر محاورات و مصطلحات میں حسب سیاق و سباق مختلف معانی میں مستعمل جیسے دل بیٹھنا، آنکھیں بیٹھنا، عمل بیٹھنا وغیرہ۔
٤٦ - دوسرے فعل کے ساتھ معاون کے طور پر حسب موقع معنی میں مستعمل، جیسے دے بیٹھنا، لگا بیٹھنا، روٹھ بیٹھنا وغیرہ (اپنے اپنے مقام پر مندرج)۔