پنکھڑی

( پَنْکْھڑی )
{ پَنْکھ (ن غنہ) + ڑی }
( ہندی )

تفصیلات


پنکھڑی  پَنْکْھڑی

ہندی سے اردو میں اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیاتِ میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : پَنْکْھڑِیاں [پَنْکھ (ن غنہ) + ڑِیاں]
جمع غیر ندائی   : پَنْکْھڑِیوں [پَنْکھ (ن غنہ) + ڑِیوں]
١ - پھول کی پتی، برگِ گُل۔
'پھولوں کی ایک ایک پنکھڑی اور درختوں کا ایک ایک پتہ زبردست شہنشاہ کی حکومت کا پتا دے رہے ہیں۔"      ( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ١٤٧ )
٢ - چرخے کے چکر اور بجلی کے پنکھے کا ہر ایک پھرّا یا پَر جو اس کے منڈے میں ٹُھکا ہوتا ہے۔
'تم نہ ہو تو میں ایسی ہوں جیسے بے پنکھڑی کا برقی پنکھا۔"      ( ١٩٦٢ء، آفت کا ٹکڑا، ٢٧٦ )
  • پَتِّی
  • petal leaf of a flower