ترو تازہ

( تَرو تازَہ )
{ تَرو (و مجہول) + تا + زَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے مرکب عطفی ہے۔ دو اسمائے صفات کو 'و' حرف عطف سے ملایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٨٤ء کو "سحرالبیان" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - ڈال کا ٹوٹا ہوا، وہ پھل جو حال ہی میں توڑا گیا ہو، تازہ تازہ جس کی اصلی تری برقرار ہو۔
"ایک عورت انتہائی ترو تازہ زنگترہ لائی"      ( ١٨٧٦ء، تہذیب الاخلاق، ٩٢:٢ )
٢ - سرسبزو شاداب، ہرا بھرا، (مجازاً) آباد اور خوشحال۔
 رہتے ہیں تروتازہ گل شعر ہی اے سحر یہ باغ ہے ایسا کہ خزاں ہو نہیں سکتا      ( ١٩١٨ء، سحر (سراج منیر خاں)، بیاض سحر، ٧١ )
٣ - با رونق، آبدار، سرخ، سفید۔ (نوراللغات)
٤ - بااثر، مفید۔
"جو شخص کسی اپنے ہم جنس کو نفع پہنچاتا ہے وہ حقیقیت میں اپنی آسایش کے کسی وسیلے کو تروتازہ کرتا ہے۔"      ( ١٨٧٦ء، مقالات حالی، ٣:٢ )
٥ - حال ہی میں تیار کی ہوئی، مستعد، تازہ دم۔
"اس نے فرات کے پاسبانوں کو اور تروتازہ امداد بھیجی۔"      ( ١٩٤٠ء، فاطمہ کا لال، ١٣٦ )
  • fresh and moist;  ripe and fresh;  quite fresh