بہلانا

( بَہْلانا )
{ بَہ (فتحہ بہ مجہول) + لا + نا }
( ہندی )

تفصیلات


بَہَل  بَہَلْنا  بَہْلانا

ہندی زبان سے ماخوذ اردو مصدر لازم 'بہلنا' سے اردو قواعد کے تحت تعدیہ ہے یعنی علامت مصدر 'نا' سے پہلے 'ا' لگانے سے متعدی بنایا گیا ہے۔ ١٦٧٢ء میں علی عادل شاہ ثانی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - تسلی دینا، تشفی دینا، باتوں سے خوش کرنا۔
 تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعی کرم فرما بھی گئے اس سعی کرم کو کیا کہیے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے      ( ١٩٣٨ء، آہنگ، ١٠٣ )
٢ - کسی اور مشغلے یا کھیل میں لگا کر بچے کو رونے سے باز رکھنا۔
'میں نے ہرچند بہلایا مگر وہ جوں جوں بہلاتا تھا اور زیادہ روتا تھا۔"      ( ١٩٢٥ء، حکایات لطیفہ، ١١١:١ )
٣ - ٹال مٹول کرنا، دھوکا دینا، فریب میں رکھنا۔
'جورو اس کی ڈھونڈتی پھرتی ہے - ہم نے اس کو بہلا دیا کہ شوہر ترا علاقے پر بھیجا گیا۔"      ( ١٨٩٢ء، طلسم ہوشربا، ١٤٤:٦ )
٤ - کسی دوسری جانب دھیان بٹا دینا تاکہ پریشانی وغیرہ کی بات بھول جائے۔
'نمک حرام نے رات بھر مجھ کو کتاب نہ دیکھنے دی قصص و حکایات میں بہلائے رہی۔"      ( ١٨٩١ء، طلسم ہوشربا، ٦٤٥:٥ )
٥ - خوش کرنا، طبیعت کو بحال کرنا۔
'ان اون کے بنے ہوئے کھلونوں سے بہلاتے تھے۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٩٣:٢ )