پوچھنا

( پُوچْھنا )
{ پُوچھ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پرچھا  پُوچھ  پُوچْھنا

سنسکرت میں لفظ'پرچھا' سے ماخوذ اسم مجرد 'پوچھ' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت لاحقہ مصدر 'نا' لگنے سے 'پوچھنا' بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو 'دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - دریافت کرنا، معلوم کرنا، استفسار کرنا۔
 اب آئے ہو تو یہ بھی داستان تم کو سنا دیں گے نہ پوچھو کس مصیبت میں دل بربادِ ہجراں تھا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٢٥ )
٢ - التفات کرنا، متوجہ ہونا، پرسان حال ہونا۔
'بقول شخصے کتے اور کوے بھی نہیں پوچھتے ہیں۔"      ( ١٩٠٤ء، آفتابِ شجاعت، ٢٩٠:٤ )
٣ - قدر و منزلت کرنا، آؤ بھگت کرنا۔
 قدردانِ طرز و وضع عہدشاہی کون ہے لاکھ تنیے آپ کو اب پوچھتا ہی کون ہے      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٣٦١:٣ )
٤ - بیمار کا حال دریافت کرنا، بیمار پرسی کرنا۔
 پوچھا نہ کسی نے کہ وہ بیمار کدھر ہے نے بھائیوں کو دھیان نہ بہنوں کو خبر ہے      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٠:١ )
٥ - خبرلینا، نان نفقے کا خبر گیراں ہونا۔ (نوراللغات)۔
٦ - خیر و عافیت معلوم کرنا، عیادت کرنا۔
 لطف کی بھی خوب سوجھی ان کو تڑپانے کے بعد پوچھنے آئے ہیں مجھ کو دم نکل جانے کے بعد      ( ١٩١٩ء، درشہوار، بیخود دہلوی، ٣٦ )
٧ - صلاح لینا، مشورہ کرنا۔ (نوراللغات)۔
٨ - پرسش کرنا، باز پرس کرنا، مواخذہ کرنا، روکنا ٹوکنا۔
'پہلے تو تم اس قدر پوچھ گچھ نہیں کرتی تھیں۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، درگیش نندنی، ٤٦ )
٩ - عزت و اہمیت دینا، قدر کرنا۔
'زمانہ سابق میں شرفا سیف و قلم دونوں امور میں پوچھے جاتے تھے کہ ایک صورت وسعتِ رزق کی تھی۔"      ( ١٨٤٨ء، توصیف زراعات، ٩ )
١٠ - خاطر میں لانا۔
'اور حسن نظامی کے سامنے ہم کو کون پوچھے گا۔"      ( ١٩١٩ء، آپ بیتی، ٢١ )
١١ - بلانا، طلب کرنا۔
 بڑے صاحب نے پوچھا ہے ہمیں آج نہ پوچھو اب ہمارا پوچھنا کیا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٤٩ )
١٢ - امداد کرنا، مدد کرنا۔ (نوراللغات)۔
١٣ - مانگ یا کھپت ہونا، ضروری خیال کرنا۔
'اشبیلیہ میں ان چیزوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔"      ( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ٤٣:٥ )
١٤ - ٹوکنا، روکنا۔
'تم بے کھٹک چلے آؤ کوئی نہیں پوچھ سکتا۔"      ( ١٩٦٩ء، شبدساگر، ٣٠٧٢:٦ )