بجھانا

( بُجھانا )
{ بُجھا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


ویندیت  بُجْھنا  بُجھانا

سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر لازم 'بجھنا' سے اردو قواعد کے مطابق تعدیہ بنایا گیا ہے یعنی علامت مصدر 'نا' سے پہلے 'الف' کا اضافہ کرنے سے مصدر متعدی 'بجھانا' بنا ١٦٢٥ء میں "بکٹ کہانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - کسی جلتی سلگتی یا تپتی ہوئی چیز کو سرد کرنا، سوزش کو دور کرنا آگ کو ٹھنڈا کرنا؛ استعارۃً۔
 اکبر میں واری عابد بیمار کو بچاؤ عباس گھر کو آگ لگی ہے بجھانے آؤ      ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١٢٧:٥ )
٢ - بھڑکتے ہوئے جذبے اشتعال یا طلب وغیرہ کو فرد کرنا۔
"اچھی زندگی کی اشتہا بجھانے کے علاوہ اور دوسری بہت سی چیزوں پر منحصر ہے"      ( ١٩٤١ء، ہماری غذا، پیش لفظ، ج )
٣ - پژ مردہ کرنا، افسردہ کرنا، حوصلہ پست کرنا، مایوس، مضمحل کرنا (دل طبعیت وغیرہ کے ساتھ مستعمل)۔
 دامن ناز حسن نے سنتے ہی دل بجھا دیا تیرگی حیات کو عشق نے جگمگا دیا      ( ١٩٤٠ء، شبنمستان، ٤٤ )
٤ - چراغ شمع وغیرہ کو گل کرنا۔
 کیوں تم پر مری وجہ سے اس جنگ میں آنچ آئے لو شمع بجھا دی جسے جانا ہو چلا جائے    ( ١٩٢٧ء، مرثیۂ فہیم (باقر علی خان)، ٥ )
٥ - تیزاب وغیرہ کو کسی گیلی چیز میں ڈالنا (اس کی تاثیر بدلنے کے لیے)۔
"کھاری نمک . گائے کے گوبر میں بجھاتے ہیں"    ( ١٨٤٥ء، مجمع الضنون (ترجمہ)، ١٩٨ )
٦ - ماند کر دینا، دبا دینا، ختم کر دینا۔
 جرات کے دعویداروں نے دعوے بجھا دیے کل مدعی گواہ صفائی بنا دیے      ( ١٨٦٠ء، مرثیۂ یکتا (حیدر حسین)، ١٠ )
٧ - مختلف الفاظ کے ساتھ ترکیب پا کر سیاق و سباق کے اعتبار سے خاص خاص معانی میں مستعمل، جیسے: چونا بجھانا، (کسی کام چراغ بجھانا، لگانا بجھانا، تیور بجھانا وغیر)۔
٨ - پتھر جلتی ہوئی لکڑی یا کسی دھات کو آگ میں لال کر کے پانی میں ڈالنا (کسی طبی ضرورت کے لیے)۔
"سونے سے بجھایا ہوا پانی پلایا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔"    ( ١٩٢٣ء، حمیات اجامیہ، ٥١٠ )
٩ - زہر کے پانی میں کسی ہتیار کو گرم کرکے غوطہ دینا (تاکہ زہر کا اثر اس میں آجائے)۔
"عمیر نے گھر آ کر تلوار زہر میں بجھائی اور مدینے پہنچا"    ( ١٩١١ء، سیرۃ النبیۖ، ٣١٠:١ )
١٠ - ہتھیار کو گرم کر کے کسی عرق میں غوطہ دینا (مسقل کے لیے)، آب دینا، پانی پھیرنا۔ (ماخوذ: نوراللغات، 571:2؛ فرہنگ آصفیہ، 369:1)