ٹٹکاری

( ٹِٹْکاری )
{ ٹِٹ + کا + ری }
( ہندی )

تفصیلات


اصلاً ہندی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے ہندی سے اردو میں ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو رسم الخط میں مستعمل ہے ١٨٦٧ء میں "رسوم ہند" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : ٹِٹْکارِیاں [ٹِٹ + کا + رِیاں]
جمع غیر ندائی   : ٹِٹْکارِیوں [ٹِٹ + کا + رِیوں (واؤ مجہول)]
١ - بیل، گدھے یا گھوڑے کو ہنکارنے کی آواز۔
"اس نے کہا کہ خطرہ بھی ہو گا تو ایک ٹٹکاری میں میرا گھوڑا ہوا ہو جائے گا"      ( ١٩٥٨ء، عمر رفتہ، ٤٨٧ )
٢ - زبانی جمع خرچ، مفت کی کار گزاری۔ (نوراللغات)
٣ - دادو تحسین کی آواز، شور۔
"ہم خیالوں کے مجمعوں میں بڑھ بڑھ کر باتیں نہیں بناتی، نہ تالیوں اور نعروں اور جے کی ٹٹکاری پر چہچہاتی ہے"      ( ١٩٤٣ء، تعلیمی خطبات، ٢٢٧ )
٤ - [ مجازا ]  ڈانٹ۔
"حضرت ہوشیار رہیے کبھی ایسی ٹٹکاری دی ہو گی کہ یاد کرو گے"      ( ١٨٧٠ء، خطوط سرسید، ٩٤ )
٥ - آگاہ ہونے یا خبردار رہنے کے لیے آوازی اشارہ یا سیٹی۔
"ہر محل پر جو سر نکلتے ہیں وہ بتاتے رہتے ہیں کہ یہ چین چان کی بنسی ہے جنگ کا اعلان ہو یا چوکس ہو جاؤ کہ ٹٹکاری"      ( ١٩٤٠ء، شہد کی مکھیوں کا کارنامہ، ٣٠ )
٦ - اشارہ؛ شہ، اکساوا۔
"قوت ایجاد سب کی سب مٹ جاتی ہے اور صف اوروں کی ٹٹکاری پر ہماری چال رہ جاتی ہے۔      ( ١٩٤٧ء، اصلاح حال، ٣١ )
  • the clacking of the tongue by placing it on the roof of the mouth and drawing it sharply forward (a sound made to urge hoses
  • to proceed or to move faster)