آزاری[2]

( آزاری[2] )
{ آ + زا + ری }
( فارسی )

تفصیلات


آزُرْدَن  آزار  آزاری

فارسی میں مصدر لازم 'آزردن' سے تعدیہ 'آزاریدن' سے حاصل مصدر 'آزار' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'آزاری' بنا۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء میں "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : آزارِیاں [آ + زا + رِیاں]
جمع غیر ندائی   : آزارِیوں [آ + زا + رِیوں (واؤ مجہول)]
١ - ایذا رسانی، ستانا، ظلم و جور کرنا، دکھ پہنچانا۔
"لکھو کھا روپے کے اسلحہ و گولہ بارود خرید کرتے اور بنی نوع کی آزادی کے درپے ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٠٧ء، 'مخزن' مارچ، ٢٩ )
٢ - دکھ، تکلیف، بیماری، علالت، روگ (بیماری کے ساتھ مستعمل)۔
"بیماری آزاری تو چلی ہی جاتی ہے۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٩٩:١ )
  • علَالَت
  • مُصِیْبَت
  • آرام
١ - آزاری کرنا
ستانا۔ ظلم و جور کرنا۔ کوئی اگر پر درد تیرے پاس آزاری کرے تجسے غم خواری نہ ہوے پن اور آزاری کرے      ( ١٧٦١ء، مہر، علی مہر(چمنستان شعر ٣٠٣:١) )