چاٹنا

( چاٹْنا )
{ چاٹ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چِشٹ  چاٹ  چاٹْنا

سنسکرت زبان کے اصل لفظ 'چشٹ' سے ماخوذ اردو زبان میں چاٹ مستعمل ہے۔ اس کے ساتھ اردو لاحقہ مصدر 'نا' لگنے سے 'چاٹنا' اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ پنجابی میں اصل لفظ 'چڈ' سے ماخوذ اردو میں چاٹنا مستعمل ہے۔ ١٨٦٥ء میں "کلیاتِ نسیم دہلوی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - کسی رقیق غذا یا دوا وغیرہ کو زبان سے اٹھانا یا انگلی کی پور سے لے کر چھکنا، زبان کو کسی چیز پر اس کا مزہ لینے کے لیے پھرانا۔
"اگر کبھی غذا میسر نہ آئی تو صرف برتنوں کو پوچھ کر چاٹ لینے پر کفایت کرتی ہے۔"      ( ١٩١٦ء، گہوارۂ تمدن، ٩٨ )
٢ - چٹ کر جانا، صفایا کر دینا؛ میٹ دینا۔
"یہ وہ دیمک ہے جو ایمان کو چاٹ جاتی ہے۔"      ( ١٩٧٦ء، حریت، کراچی، ٢٣ اگست، ٣ )
٣ - کھانے یا لذات کے مقابل کسی اور شے پر قناعت کرنا؛ کسی کام یا معرف میں لانا، (بیشتر سوالیہ اسلوب میں مستعمل)۔
 ان کی خاطر صبح ہوتے ہی نہاری واہ واہ اور ہم چاٹا کریں ایمانداری واہ واہ      ( ١٩٥٣ء، سموم و صبا، ١٤٨ )
٤ - [ طنزا ]  (پوری کتاب یا علوم وغیرہ) اس طرح پڑھ جانا، مطالعہ یا مشاہدہ کر لینا کہ دل و دماغ پر تعلیم کا کوئی خاص اثر مرتب ہو۔
"مطالعہ کی عادت انھیں ساری عمر رہی اور ساری دنیا کا ادب اور فلسفہ انھوں نے چاٹ لیا۔"      ( ١٩٦٢ء، گنجینۂ گوہر، ٣٢ )
٥ - لالچ میں پڑے رہنا، حسرت بھرا ہونا، حریص ہونا۔
 اک عشق ہے ہونٹوں سے حلاوت طلبوں کو اگر دیکھیے تو چاٹا کرے شیریں بھی ہوں کو      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٨:٢ )
٦ - [ مجازا ]  صرف میں لانا۔
"قلم کاغذ کو چاٹتا ہے، آپ چیونٹا بنا اور اس کو مصری بنایا۔"      ( ١٨٦٣ء، انشائے بہار بیخزاں، ٧٣ )