پہ

( پِہ )
{ پِہ (کسرہ پ مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


اُپار  پر  پِہ

سنسکرت میں لفظ'اپار' سے ماخوذ حرف 'پر' کی تخفیف 'پر' اردو میں بطور حرفِ ربط مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو"دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف ربط
١ - 'پر' کی تخفیف، حسبِ ذیل معنوں میں مستعمل۔ لیکن، مگر۔     
 غفلت کے یہ چل رہے تھے جھونکے گو صبح ہوئی پہ ہم نہ چونکے     رجوع کریں:  پر ( ١٩١٤ء، شبلی، کلیات، ٢ )
٢ - باوجود، بوصف۔
 تیغ و سپر میں تیر الٰہی کی چال ڈھال دعویٰ نہ اس پہ کچھ نہ تکبر نہ قیل و قال      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٤٦:٤ )
٣ - تسلسل، کثرت، یکے بعد دیگرے، پے در پے۔
"ادھر میاں ہیں کہ آدمی پر آدمی، تقاضے پر تقاضا، ادھر بیوی ہیں کہ چور بنی بیٹھی ہیں۔"      ( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ٨٣ )
٤ - بعد میں، پیچھے۔
 تری دولتِ وصل دم دے کے پائی جو مرنے پہ دیکھا وہ مرتے نہ دیکھا      ( ١٩١١ء، نذرِ خدا، ٣٦ )
٥ - (آغاز فصل کے لیے بمعنی) کو، والا۔
 دل دھڑک اٹھا کہ ہائے گاڑی چھوٹنے پہ ہے اک نظر کا آسرا یہ بھی ٹوٹنے پہ ہے      ( ١٩١٣ء، نیرنگِ جمال، ١٨ )
٦ - انحصار یا امید ظاہر کرنے کے لیے۔
 ہمرہ کسی لشکری کے ہو کر قسمت پہ چلا یہ نیک اختر      ( ١٨٣٨ء، گلزارِ نسیم، ٤ )
٧ - زاید۔
 روش دیکر یاں کا مجے آئے بیم یو جا گے پہ البت ہے کچھ تو عظیم      ( ١٦٠٩ء، قطب مشتری(ضمیمہ)، ٢٢ )
٨ - اوپر، کے لیے، کی خاطر۔
 تلواریں بھی چلیں تو نہیں مارنے کے دم امت پہ اپنے سر کو تصدیق کریں گے ہم      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٠:١ )
٩ - ضرور، حتماً، شرطیہ، یقیناً۔
 ترے دست و بازو فرشتوں کے دستے تو ہے وہ زبردست جیتے پہ جیتے      ( ١٩٢٧ء، سُریلے بول، ١٨٢ )
١٠ - مقابلے کے لیے، سے، ساتھ۔
 عیب سے خالی نہ واعظ ہے نہ ہم ہم پہ منہ آئے گا منہ کی کھائے گا      ( ١٩١٤ء، حالی، کلیات، ٦٩ )
١١ - حالت، صورت۔
 تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں      ( ١٧٨٤ء، درد، کلیات، ٥١ )
١٢ - عدد اور ہندسے کے درمیان آ کر 'زیادہ' یا 'اور' کے معنی دیتا ہے۔
 دی جاں رہ خلاق میں ستّر پہ دو تن نے یک ایک ہے جنت کو سدھارا مرے آگے      ( ١٩١٩ء، گلزار بادشاہ، ٦٣ )
١٣ - اور، پھر، بعد کو، لیکن۔
 یہ مر گئے ہیں آج، پہ کل ہم کو مرنا ہے چلئے مکاں میں دفن کی تجویز کرنا ہے      ( ١٨٨٢ء، رونق کے ڈرامے، ١٥٢:٥ )
١٤ - کسی چیز کی بیرونی سمت ظاہر کرنے کے لیے، محلِ وقوع ظاہر کرنے کے لیے، سے۔
 وہ کہتے ہیں نکلنا اب تو دروازے پہ مشکل ہے قدم کوئی کہاں رکھے جدھر دیکھو ادھر دل ہے      ( ١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ٢٨٧ )
١٥ - بابت، بارے میں۔
 بچپن پہ خادمان اولوالعزم کے نہ جائیں جب چاہیں معرکے میں ہمیں آپ آزمائیں      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٧١:٢ )
١٦ - سامنے، پیش، آگے۔
 میت پہ لوگ روتے تھے لے لے علی کا نام آخر اٹھا جنازہ شاہ فلک مقام      ( ١٨٧٥ء، مونس، مراثی، ٣٠:٣ )
١٧ - کے اوپر، پر۔
 کیا سنبھلے جس پہ ظلم کا یوں آسماں گرے دل تھام کر زمیں پہ امامِ زماں گرے      ( ١٨٧٤ء،ء انیس، مراثی، ٥٨:١ )
١٨ - کے واسطے، کے لیے، کے معاملے میں۔
 چین آئے گا کس طرح مرے دل میں جو یوں ہی پہرے پہ دم سرد ٹہلتا ہی رہے گا      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ٢١ )
  • on
  • in
  • at;  but
  • yet