اصلاً انگریزی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں انگریزی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور معنی میں ہی اردو زبان میں عربی رسم الخط کے ساتھ مستعمل ہے ١٩٠٣ء "آئینہ موٹر" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : ٹَرْمِنَلوں [ٹَر + مِنَلوں (واؤ مجہول)]
١ - سرے کا، دھوکا، آخری۔
"چورا ہے کے ہر دو جانب ٹرمنل بلڈنگ کے قریب کوئی گاڑی کھڑی نہیں کی جائے گی"
( ١٩٦٦ء، روز نامۂ جنگ، ٣، ٢:١٨١ )
٢ - مدت مقررہ پر کیا جانے یا واقع ہونے والا، میعادی، میقاتی۔
"بی۔اے میں کمار فرسٹ تھا اور ٹرمنل امتحانوں میں بھی اس سے بہت آگے رہا"
( ١٩٥٥ء، آبلہ دل کا، ١٤٨ )
٣ - ریل کا آخری اسٹیشن؛ بسوں کا آخری اڈا جہاں سے کرائے کی گاڑیاں روانہ ہوتیں اور جہاں تک جاتی ہیں؛ ہوائی اڈے کی وہ عمارت جہاں سے مسافر آتے اور روانہ ہوتے ہیں۔
"ڈرائیور کو ہدایت کی کہ ان صاحب کو فوراً حج ٹرمینل پر پہنچا دو"
( ١٩٧٥ء، مساوات، کراچی، جنوری: ٣ )
٤ - سرا، منتہا؛ خصوصاً برقی مورچے (بیٹری) کے دونوں سرے کے پیچوں میں سے ایک پیچ۔
"بیٹری کے ٹرمینل کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ ان پر سبز رنگ کا زنگ تو نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ گل نہ جائیں"
( ١٩٠٣ء، آئینہ موٹر، ٥٦ )