پہلوان

( پَہْلْوان )
{ پَہْل (فتحہ پ مجہول) + وان }
( فارسی )

تفصیلات


پہلوان  پَہْلْوان

فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور اپنے اصل معنی اور صورت میں بطور صفت اور گاہے اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو 'خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع غیر ندائی   : پَہْلْوانوں [پَہْل (فتحہ پ مجہول) + وا + نوں (و مجہول)]
١ - [ اسم مذکر ]  کامل، ماہرِفن، ہیرو، بزرگ۔
"اس پہلوان سخن کو زمانے سے استادی کی سند ملی۔"      ( ١٩٠٥ء، مضامین چکبست، ٩٠ )
٢ - [ اسم مونث ]  موسیقی کی ایک تال۔
"پشتو، ذوبحر - قید، پہلوان، پٹ تال، چپک تال۔"      ( ١٩٦٠ء، حیاتِ امیر خسرو، ١٩١ )
صفت ذاتی
١ - توانا، قوی جثہ، کسرتی جسم والا۔
 پہلوان قیس تھا سچ پوچھو تو میں لاغر ہوں عاشقوں میں کہو کس کا یہ تن و توش ہوا      ( ١٨٨٦ء، دیوان سخن، ٥٥ )
٢ - بہادر، دلاور، سورما۔
"اصل پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کا مالک ہو۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٢٦:٣ )
٣ - کشتی لڑنے والا۔
"متھرا میں کشتی کے دنگل کا زمانہ قریب تھا جس میں دور دور کے پہلوان آتے اور کشتیاں لڑتے تھے۔"      ( ١٩١٧ء، کرشن بیتی، ٥٩ )