ٹسر

( ٹَسَر )
{ ٹَسَر }
( سنسکرت )

تفصیلات


ترسرہ  ٹَسَر

سنسکرت کے اصل لفظ 'ترسرہ' سے ماخوذ اردو زبان میں 'ٹسر' مستعمل ہے اصل معنی اور اصلی حالت میں ہی اردو رسم الخط میں بطور اسم مستعمل ہے ١٩١٦ء میں "سائنس و فلسفہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : ٹَسَروں [ٹَسَروں (واؤ مجہول)]
١ - ریشم، سلک (خام شکل میں)۔
 ہیں ٹسر کے کپڑے بھی اس قسم کے جانور اس طرح کے ہیں اور بھی      ( ١٩١٦ء، سائنس و فلسفہ، ٤٠ )
٢ - ادنی قسم کا ریشم، گھٹیا ریشمی کپڑا، مصنوعی ریشم سے تیار کیا ہوا کپڑا۔
"بازار میں جو مرسرائز کپڑا یا چمک دار سوٹ ٹسر کے نام سے ملتا ہے وہ اسی طریقے پر تیار کیا جاتا ہے"      ( ١٩٣٥ء، کپڑے کی چھپائی، ٢٤ )
٣ - وہ مصنوعی ریشم کا تاگہ جس سے کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔
"آج بلاقی یزاز کی دکان سے ماسٹر صاحب نے چار روپے کی ٹسر خریدی ہے"      ( ١٩٣٤ء، تین پسیے کی چھوکری، ١٠٨ )
  • سِلَک
  • a coarse kind of silk