چاندنا

( چانْدْنا )
{ چانْد (ن مغنونہ) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چَنْدرَہ  چانْد  چانْدْنا

سنسکرت زبان کے لفظ 'چندرہ' سے ماخوذ ہے اور امکان ہے کہ پنجابی کے لفظ 'چندو' سے بھی ماخوذ ہے اردو میں 'نا' لاحقۂ نسبت لگانے سے چاندنا بنا۔ ١٩٦٥ء میں "جواہراسراراللہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چانْدْنے [چانْد (ن مغنونہ) + نے]
جمع   : چانْدْنے [چانْد (ن مغنونہ) + نے]
جمع غیر ندائی   : چانْدْنوں [چانْد (ن مغنونہ) + نوں (و مجہول)]
١ - چاند کی روشنی؛ روشنی، اجالا (تاریکی کی ضد)۔
"جوں ہی بادل چھٹے پھر چاندنا ہے"      ( ١٩٤٣ء، ضدی، ٤١٤:٤ )
٢ - وہ کبوتر جس کا سر گردن اور سینہ سفید ہو اور پر بھی کچھ سفید ہوں؛ سفید پروں والا کبوتر۔
 گھر مرا تاریک ایسا ہے کہ لے کر خط یار چاندنا آیا تو وہ کالا کبوتر ہو گیا      ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ٥:٢ )
٣ - رونق، بہار، زیبائش؛ ظہور، جلوہ۔
"خدا پر نور کا اطلاق اس لیے کیا گیا کہ زمین و آسمان میں اسی کا چاندنا اور اسی کا ظہور ہے"      ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ٨ )
٤ - تیتر کی ایک قسم جو ہمالیہ کے پہاڑوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے، لاطینی میں (Gallophasis albocristatus)۔ (پلیٹس)