پیاسا

( پِیاسا )
{ پِیا + سا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پری+آل  پِیاس  پِیاسا

سنسکرت سے ماخوذ اسم 'پیاس' کے ساتھ لاحقۂ صفت مذکر 'ا' ملنے سے 'پیاسا' بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : پِیاسی [پِیا + سی]
واحد ندائی   : پِیاسے [پِیا + سے]
جمع   : پِیاسے [پِیا + سے]
جمع ندائی   : پِیاسو [پِیا + سو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پِیاسوں [پِیا + سوں (و مجہول)]
١ - تشنہ، جسے پانی پینے کی خواہش ہو۔
"جنگِ احد میں پیاسے کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ١٩٤:٢ )
٢ - [ مجازا ]  مُشتاق، آرزو مند۔
"میری پیاسی آنکھوں کو آخری وقت آپ کے مزارِ پرانوار کا دیدار بھی نصیب نہ ہو سکا۔"      ( ١٩٤٠ء، فاطمہ کا لال، ٩٣ )
٣ - [ مجازا ]  حاجت مند، غرض مند، ضرورت مند، خواہش مند۔
"وہ پیاسے تم ہو کہ کنواں تمھارے پاس آئے تو تمھاری پیاس بجھے۔"      ( ١٨٩٢ء، لکچروں کا مجموعہ، ٣١٦:١ )
  • تِشْنَہ
  • مُتَمِنّی