پیادہ

( پِیادَہ )
{ پِیا + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


پیادہ  پِیادَہ

فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم، صفت اور گاہے متعلقِ فعل استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٥ء کو "جواہر اسراراللہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پِیادے [پِیا + دے]
جمع   : پِیادے [پِیا + دے]
جمع ندائی   : پِیادو [پِیا + دو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پِیادوں [پِیا + دوں (و مجہول)]
١ - سرکاری ہرکارہ، چپراسی، کوتوال یا حاکم کا نوکر۔
"میں عورت ذات، بے والی وارث، جب سرکاری پیادے آکھڑے ہوں گے، ان سے بات چیت کون کرے گا۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ١٥٧ )
٢ - شطرنج کا سب سے چھوٹا مُہرہ جو گھوڑے، فیل رخ، فرزین اور بادشاہ کے علاوہ ہوتا ہے اور جس کی چال ایک گھر کی ہوتی ہے جو سیدھا اور سامنے چلتا ہے اور آڑا مارتا ہے۔
 پہنچ سکتے ہیں کب مجھ کو ٹکے گز کی ہے چال ان کی پیادے اپنی چالوں سے فرزیں ہو نہیں سکتے      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٥١٣ )
٣ - ٹڈی کی ایک قسم۔
"یہ حیوان دو قسم کا ہوتا ہے، ایک قسم کو سوار کہتے ہیں اور یہ ہوا میں اڑتا ہے اور دوسری قسم کو پیادہ کہتے ہیں جو جست کرتا ہے۔"      ( ١٩٧٧ء، عجائب المخلوقات، ٥٦٨ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع   : پِیادے [پِیا + دے]
جمع ندائی   : پِیادو [پِیا + دو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پِیادوں [پِیا + دوں (و مجہول)]
١ - سوار کا نقیض، پیدل۔
 ہے اگر فائق پیادے سے سوار مست پر غالب اگر ہشیار ہے      ( ١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ٥٣٨:٢ )
٢ - پیدل فوج کا سپاہی۔
"دفعۃً ان کے سپاہی، پیادے جو پہلے ہی یہاں چھپے بیٹھے تھے، نکل پڑے۔"      ( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ٥٣ )
٣ - [ مجازا ]  سوار کے مقابلے میں معمولی درجے کا، عامی خاص کے مقابلے میں۔
 سرزمینِ لکھنؤ بھی تختۂِ شطرنج ہے کیا پیادہ کیا سوار آسودہ دل گھر میں نہیں      ( ١٨٣١ء، ریاض البحر، ١٢١ )
٤ - [ مجازا ]  وہ پھول جس کا پودا چھوٹا ہو (مقابلتاً : سوار : وہ پھول جس کا پودا اونچا ہو)۔
 گلِ سوار و پیادہ شکست کھا گئے سب چمن میں جب تن تنہا وہ شہ سوار آیا      ( ١٨٣١ء، دیوانِ ناسخ، ٣:٢ )
متعلق فعل
١ - بغیر سواری کے، پاؤں پاؤں، پیدل۔
"جلوس میں وہ پیادہ نہیں بلکہ سوار ہو کر نکلتا ہے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٩٤:٣ )
  • پیدَل
  • چَپراسی