چبھنا

( چُبْھنا )
{ چُبْھ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


کَشْبِھی  چُبْھنا

سنسکرت زبان کے لفظ 'کشبھی' سے اردو میں 'چبھنا' بنا اور اردو میں بطور فعل مستعمل ہے۔ ١٦٩٧ء میں "دیوان ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - جسم میں ایک نوکدار شے کا بھکنا یا کھال میں گڑنا، کسی نوکیلی شے کا داخل ہونا، کسی شے کا رگڑ سے جسم کو متاثر کرنا، گھسنا۔
"کروٹ جولی تو بچھو نے میں کوئی چیز چبھی"      ( ١٩٠٣ء، انتخاب توحید، ٦٠ )
٢ - ناگوار گزرنا، باعث اذیت ہونا۔
 وہ طبع سخت میں پیدا ہو انقلاب عظیم کہ تیرے قلب میں چبھنے لگے گلوں کی شمیم      ( ١٩٣٣ء، فکرو نشاط، ٦٤ )
٣ - [ مجازا ]  دل پر اثر کرنا، کھب جانا؛ موثر ہونا، سینے میں کھٹکنا، کھبنا۔
"ان کے خاص لفظ اور جملے جن میں جدت اور طباعی کی جو پائی جاتی تھی اب تک دلوں میں چبھتے ہیں"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٥ )