چپٹا

( چَپْٹا )
{ چَپ + ٹا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چَپْٹ  چَپْٹا

سنسکرت سے ماخوذ اصل لفظ 'چپٹ' کے ساتھ اردو میں 'ا' بطور لاحقہ صفت لگانے سے 'چپٹا' بنا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٩٥ء میں "فرسنامہ رنگین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چپٹے [چَپ + ٹے]
جمع   : چَپْٹے [چَپ + ٹے]
جمع غیر ندائی   : چَپْٹوں [چَپ + ٹوں (و مجہول)]
١ - [ معمولا ]  جتنی اونچائی ہونی چاہیے اس کی نسبت سے دبا اور بیٹھا ہوا، پچکا ہوا۔
"سر پٹکنے لگی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر چپٹا ہو گیا"      ( ١٩٢٦ء، شرر، درگیش نندی، ٥١ )
٢ - پھیلا ہوا، چوڑا، چکلا۔
"شگاف چپٹے پھاوڑے سے بنانے کے بعد . سوراخ بڑا کر دیا جاتا ہے"      ( ١٩٠٦ء، تربیت جنگلات، ٢٧٧ )
٣ - پٹ، پھیلواں، پتلا۔
"خمیدہ سر ستون سیدھے گردنے اور چیٹی پٹیوں کی چھتیں جا بجا موجود ہیں"      ( ١٩٣٢ء، اسلامی فن تعمیر، ٥٠ )
٤ - چوڑے پھیلواں پیندے کا کم گہرا، بے کناروں والا۔
"ایک بڑے سے چپٹے کڑھاؤ کو انہوں نے ڈھلواں چولھے پر چڑھا رکھا تھا"      ( ١٩٦٢ء، ساقی، کراچی، جولائی، ٤٧ )
٥ - وہ شخص جس کی ناک بیٹھی ہوئی ہو؛ بندوق کی گولی جو صدمے (ضرب) سے چوڑی ہو گئی ہو۔ (پلیٹس؛ نوراللغات)
٦ - چپٹا گولا۔
"اگر قطع ناقص اپنے محور اصغر کے گرد گھومے تو جو کرہ نما پیدا ہوتا ہے اس کو چپٹا کرہ نما کہتے ہیں"      ( ١٩٢٩ء، مساحت، ١٤٠:٢ )
٧ - وہ گھوڑا جس کی پشت معمول کے مطابق ابھری ہوئی نہ ہو۔
 جو ہے ہموار اس کو جان چپٹا بذوق اس کو جہاں چاہے تو جھپٹا      ( ١٧٩٥ء، فرسنامۂ رنگین، ٦ )
٨ - وہ گھڑا جو پھیلا اور پچکا ہوا ہو۔ (پلیٹس)
٩ - ہموار، مسطح۔
"آج یہ کوشش کی جارہی ہے کہ آٹھ سلنڈر کے ایسے ہموار اور چپٹے انجن بنائے جائیں"      ( ١٩٤٩ء، موٹر انجینیر، ١٤٣ )