اچکنا

( اُچَکْنا )
{ اُچَک + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


اُچَک  اُچَکْنا

سنسکرت زبان کے لفظ 'اُچَک' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر استعمال کیا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - یکایک اوپر اٹھنا، ابھرنا۔
"وہ اس سبز مہرے کے زور سے اچک کر ہوا پر جاتا رہا۔"      ( ١٨٠٣ء، گل بکاولی، نہال چند، ٥٥ )
٢ - چھلانگ مارنا، پھاندنا، جست کرنا۔
"ہم تیرھویں صدی سے اچک حال کی تہذیب میں نہ آ سکتے تھے۔"    ( ١٨٩٩ء، بست سالہ عہد حکومت، ٩٣ )
٣ - اونچا ہو جانا، اچھلنا، پھدکنا۔
"اگر رگ اچکتی ہوئی محسوس ہو تو یہ بہت بڑی قسم کا ابھار ہو گا۔"    ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ١٨٠ )
٤ - بلند پروازی کرنا (طبیعت وغیرہ کے ساتھ)۔
"جس شخص کے پیش نظر آفتاب ہے، ضرور ہے کہ اس شخص سے زیاد اچکے گا جس کی مدنظر زمین ہے۔"    ( ١٩١١ء، نشاط عمر، ٨٦ )
٥ - ترقی کرنا، بڑا درجہ یا رتبہ پانا۔
"دستور ہے، خاندان میں ذرا اچک جائے پھر حشرات الارض کی طرح اعزہ و اقربا کی بم خدا جانے کہاں سے پھوٹ نکلتی ہے۔"    ( ١٩١٥ء، سجاد حسن، کایا پلٹ، ٢١ )
٦ - پھڑک جانا، محظوظ ہونا۔
 ہے ظہیر اس پہ عمل کل جدید ہے لذیذ تازہ مضمون پہ طبیعت بھی اوچک اٹھتی ہے    ( ١٨٩٩ء، دیوان ظہیر، ٢١٠:١ )
فعل متعدی
١ - چھیننا، جھپٹنا، اڑا لینا، لے بھاگنا، چرا لینا (کسی شے کو)۔
"ساجد نے پیسہ آگے بڑھایا، زینب نے جلدی سے اسے اچک لیا۔"      ( ١٩٦١ء، برف کے پھول، کرشن چندر، ٣٦ )
  • پھانْدنا
  • پَھلانگنا
  • اُبھرنا