ٹکانا

( ٹِکانا )
{ ٹِکا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


ترایا  ٹکنا  ٹِکانا

سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر لازم 'ٹکنا' سے اردو قواعد کے مطابق تعدیہ ہے یعنی علامت مصدر 'نا' سے پہلے 'ا' لگا کر متعدی بنایا گیا ہے۔ ١٨٨٠ء میں "فسانۂ آزاد" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - کسی چیز کو دیوار وغیرہ سے لگا کر کھڑا کر دینا۔
"بڑے نے اپنی - سائیکل دوکان کے تھڑے سے ٹکائی۔"    ( ١٩٥٥ء، منٹو، سرکنڈوں کے پیچھے، ١٥٥ )
٢ - کسی چیز کو کسی دوسری چیز کے سہارے رکھنا۔
"مسودے کو میز پر رکھا اور کہنی ٹکا کر - سوچنے لگا۔"    ( ١٩٦٦ء، جمالستان، ٣١٠ )
٣ - جمانا، رکھنا نیز مجازاً۔
"موقر افراد کو - انہماک ہوتا تو ایسے لوگوں کو اپنے جماعتی امور میں ذمہ داری کے عہدے پر قدم ٹکانے ہی کیوں دیتے۔"      ( ١٩٢٤ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ٩، ٩:٢ )
٤ - لگانا، مارنا۔
"ایسی کمر پر ٹکائی کہ چور بچارا اسباب سمیت وہیں رہ گیا۔"      ( ١٩١٠ء، نگارستان فارس، ١٨٠ )
٥ - گھر میں ٹھہرانا، قیام کرانا۔
"آزاد مرزا نے بڑے تپاک سے چانڈو باز کو اپنے گھر میں ٹکایا۔"      ( ١٨٨٠ء، فسانۂ آزاد، ٦٣:٣ )
٦ - کسی معاملت میں اصول کے خلاف کسی کو کچھ دینا۔
"امین آباد سے دوآنے پر رکشا طے کیا جب گھر پہونچ گئے تو ایک اکنی ٹکائی۔"      ( ١٩٦٢ء، مہذب اللغات )
  • روکْنا
  • ٹَھہرانا
  • to cause to stop
  • stay
  • remain or lost;  to stop
  • detain
  • check;  to retain;  to fix (in or on a place)
  • to station
  • encamp;  to put (one) up
  • lodge
  • billet;  to apply
  • lay on
  • give ( a blow or slow)