ٹکنا

( ٹِکْنا )
{ ٹِک + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


ترایا  ٹِک  ٹِکْنا

سنسکرت کے اصل لفظ 'ترایا' سے ماخوذ اردو زبان میں 'ٹک' مستعمل ہے اس کے ساتھ اردو لاحقۂ مصدر 'نا' لگنے سے 'ٹکنا' بنا اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے ١٦٠٩ء میں "ضمیمہ قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - ٹھہرنا، قیام کرنا۔
"خدا جانے اب وہ ہیں بھی یا نہیں، ایسے لوگ کسی جگہ کم ٹکتے ہیں۔"    ( ١٩١٤ء، دربار حرام پور، ٥:١ )
٢ - بیٹھنا۔
"وہ دروازے کے قریب ایک کرسی پر اس طرح ٹک گئی جیسے جلتی ہوئی انگیٹھی کے کنارے بیٹھی ہو"    ( ١٩٦٧ء، جلاوطن، ١٢١ )
٣ - قرار پانا، دم لینا۔
"ہم ایک جگہ تو ٹکے نہیں، کمرے بھر میں ادھر ادھر زیرو زبر ہو رہے تھے"    ( ١٩٤٤ء، افسانچے، ١٩١ )
٤ - اترنا، فروکش ہونا۔
"ہماری کشتی ذرا آگے بڑھ کر زمین پر ٹک گئی"    ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ١٣٨ )
٥ - رکنا، جمنا۔
"دفتروں میں ہندو بھائی ہم کو ٹکنے نہیں دیتے"    ( ١٩١٩ء، روزنامچہ، حسن نظامی، ٢٣٧ )
٦ - یہ نشین ہونا، نیچے بیٹھنا۔ (فرہنگ آصفیہ)
٧ - صبر کرنا، تحمل سے کام لینا۔
"ذرا ٹکو تمہارا کام بھی ہوا جاتا ہے"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات )
٨ - (کسی بات یا کام پر) جمنا۔
"اگر کسی برے کام پر نہیں ٹکتے تو کسی بھلی بات پر بھی قائم نہیں رہتے"    ( ١٩٠٦ء، حکمت عملی، ١٤٦ )
٩ - استقلال دکھانا، مستقل رہنا۔
"اوپر کے کام کو ماما کوئی ٹھکانے کی ملتی نہیں اور ملی تو ٹکتی نہیں"    ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ٢٥٣ )
١٠ - باقی رہنا، قائم رہنا، ٹھہرنا۔
کرنوں نے شبنم کو چھیڑنا شروع کیا، بے چاری بوند کا گھڑی بھر ٹکنا دوبھر کر دیا"      ( ١٩١٢ء، سی پارۂ دل، ٣٣ )
  • رُکْنا
  • to stop
  • stay
  • remain
  • tarry;  to halt
  • put up
  • lodge
  • abide;  to be detained;  to stick fast (in);  to last
  • endure
  • continue