حرام

( حَرام )
{ حَرام }
( عربی )

تفصیلات


حرم  حَرام

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صفت ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - زنا، بدکاری، برے کام، ناجائز کام، ایسے کام جن کا کرنا گناہ ہے۔
"میرے جنازے کا امام وہ شخص ہو جس نے کبھی ازار بند کو حرام کے واسطے نہ کھولا ہو۔"      ( ١٩٠٥ء، یادگار دہلی، ٢٣٠ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - نامناسب، ناشائستہ، ناروا، ممنوع۔
"وطن تو وطن ان پر تو خاندانی حقوق کے سلسہ میں بھی غداری حرام ہے"    ( ١٩٦١ء، سود، ٣٠٧ )
٢ - ناجائز (اولاد بال وغیرہ)۔
"حرام بچی کی ماں کی حیثیت سے وہ خود کو بے انتہا انقلابی سمجھتی تھیں۔"    ( ١٩٦٦ء، دو ہاتھ، ٢٢٣ )
٣ - حرمت والا، بزرگ، محترم، قابل تعظیم۔
لوگو! اللہ تعالٰی نے جس دن سے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اسی دن سے اسے (مکہ کو) حرام قرار دیا ہے"      ( ١٩٦٢ء، بلوغ الارب (ترجمہ)، ٥١٣:١ )
٤ - شرعی طور پر ناجائز، خلافِ شرع، حلال کی ضد۔
"گرشتہ را صلٰوۃ۔ آیندہ ہمارے شعراء کو حرام اور ممنوع اشیاء کے متعلق شعر نہ کہنے چاہیں۔"      ( ١٩٧٨ء، ابن انشا، خمار گندم، ٢٠١ )
٥ - ناپاک، نجس، پلید۔
"گدھ پہلے طیب رزق کھاتا تھا، پھر یہ اپنی عقل سے حرام کی طرف راغب ہوا۔"      ( ١٩٨١ء، راجہ گدھ، ٤٦٢ )
  • an unlawful act
  • wrong-doing
  • fornication
  • adultery;  a wrong-doing
  • fornication