تفہیم

( تَفْہِیم )
{ تَف + ہِیم }
( عربی )

تفصیلات


فہم  فَہم  تَفْہِیم

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تَفْعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے معنی اور ساخت کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٨٨ء "سوانح عمری امیر علی ٹھگ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَفْہِیمات [تَف + ہی + مات]
١ - فہمائش، سمجھانا۔
"غیب سے علم پانے کا جو طریقہ ہے اسی کے ذیل میں وحی تحدیث تفہیم - جیسی چیزیں شامل ہیں۔"      ( ١٩٥٦ء، مناظر احسن گیلانی، عبقات، ٧ )
٢ - آگاہی، سمجھ میں آنا، معلوم ہونا، علم میں آنا۔
"مدت ہوئی میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک سیاہ پوش فوج عربی گھوڑوں پر سوار ہے مجھے تفہیم ہوئی کہ یہ ملائکہ ہیں۔"      ( ١٩٣١ء، مکاتیب اقبال، ٢٥٢:٢ )
  • فَہمایَس
  • making (one) understand or know;  teaching instruction
  • informing