پیترا

( پَیتْرا )
{ پَیت (ی لین) + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


پاد+انتر+کہ  پَیتْرا

سنسکرت میں لفظ 'پاد + انتر + کہ' سے ماخوذ 'پیترا' اردو میں بطور اسم اور گاہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٤٥ء کو "ترجمہ مجمع الفنون" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پَیتْرے [پَیت (ی لین) + رے]
جمع   : پَیتْرے [پَیت (ی لین) + رے]
جمع غیر ندائی   : پَیْتروں [پَیت (ی لین) + روں (و مجہول)]
١ - [ سپاہ گری۔ ]  کشتی یا پٹے کا داؤ کرتے وقت کا ٹھاٹ یا ڈھنگ یعنی حریف پر وار کرنے یا اس کے وار کو روکنے کے لیے خاص چال سے جسم کو چراتے اور بچاتے ہوئے آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا۔
"احمد بھائی سے کُشتیاں لڑ لڑ کر اُسے نئے پیترے آ گئے تھے۔"      ( ١٩٦٢ء، معصومہ، ١٠٧ )
٢ - نشان قدم، (مجازاً) کھوج، سُراغ۔
"خضران نے آ کر دیکھا تو پیترا عیار کا لگا ہوا پایا، جا کر صاحبقران سے عرض کی کہ یہ کام کسی عیار کا ہے۔"      ( ١٩١٧ء، گلستانِ باختر، ١٣٨:٣ )
٣ - [ مجازا ]  ترکیب، تجویز، ڈھنگ۔
"چوتھی کلاس تک جاتے جاتے بیسیوں منصوبے اور سینکڑوں پیترے آئندہ ترقی کے متعلق ہمارے خیال میں آئے۔"      ( سوانح عمری مولانا آزاد، ١٠:٢ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - [ مجازا ]  گم، دنگ، ششدر، ہکا بکا، حواس باختہ۔
"تینوں کے ہوش پیترا ہو گئے، حواس غائب۔"      ( ١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ٨٧٨:٤ )