پیچ دار

( پیچ دار )
{ پیچ (ی مجہول) + دار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے مرکب ہے۔ فارسی اسم 'پیچ' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے فعل امر 'دار' بطور لاحقۂ فاعلی ملنے سے مرکب توصیفی بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشنِ عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - بل کھایا ہوا، مُڑا ہوا، پیچیدہ۔
 جو جالیاں دسے زلف سیاں پیچ دار چلیا چیرتا چیرتا ٹھارے ٹھار      ( ١٦٥٧ء، گلشنِ عشق، ١٠٨ )
٢ - پیچیدہ۔ مشکل۔
"وہ ساخت درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہوئی اعلیٰ حیوانات میں نہایت دقیق اور پیچ دار بن گئی ہے۔"      ( ١٨٩٤ء، اردو کی پانچویں کتاب، اسمٰعیل میرٹھی، ١١٠ )
٣ - مبہم، الجھا ہوا، گنجلک۔
"ایک اخلاقی واعظ کے لیے پیچ دار ترکیب، شاندار الفاظ اور تشبیہ و استعارہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ١٦٢:٢ )
٤ - دغاباز، مکار، چالاک۔
"شاید خطاوار آدمی یہ گھمنڈ کرتا ہے کہ وہ بڑا پیچ دار آدمی ہے لیکن دراصل وہ بد ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ٢٦٢ )
  • twisted
  • coiled;  spiral
  • winding;  complicated
  • intricate
  • ambiguous