پیٹنا

( پِیٹْنا )
{ پِیٹ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پشٹ  پِیٹْنا

سنسکرت میں لفظ 'پشٹ' سے ماخوذ 'پِیٹ' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت علامتِ مصدر 'نا' لگنے سے 'پیٹنا' مصدر بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشنِ عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - مارنا، جسمانی سزا دینا۔
"اس عرصے میں تم نے کتنی مرتبہ ان کو کلیجے سے لگایا اور کَے دفعہ گھُرکا جھڑکا، ڈانٹا، پیٹا۔"      ( ١٩١٩ء، جوہرِ قدامت، ١٤٦ )
٢ - رونا، نوحہ و ماتم کرنا۔
 حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں      ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٩٠:٢ )
٣ - چپٹا کرنا، چوڑا کرنا، کوٹنا۔
"یہاں بہت سی رکھانیاں بھی دریافت ہوئی ہیں جو کانسے یا تانبے کی گول یا چوکور سریوں کو کاٹ کر یا ان کے سرے پیٹ کر بنائی گئی ہیں۔"      ( ١٩٥٩ء، وادی سندھ کی تہذیب، ٩٧ )
٤ - (کسی چیز پر صفائی کی غرض سے کوئی چیز) زور زور سے مارنا۔
"گدے دار سامان، اچھی طرح سے صاف کرنے کے لیے ہوا میں لے جا کر خوب پیٹا جائے۔"      ( ١٩١٦ء، خانہ داری، ١٥٠ )
٥ - کمانا، حاصل ہونا۔ (نوراللغات)۔
٦ - اندیشہ کرنا، فکر کرنا (عموماً دن وغیرہ کے ساتھ)۔
"ہم تو اسی دن کو پیٹتے تھے خیر خدا بھلا چاہے، کسی کے بُرا چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔"      ( ١٩١٠ء، راحت زمانی، ٢٠ )
٧ - جھینکنا، شاکی ہونا، رونا۔
"ایک بات ہو تو کہوں اور ایک رسم ہو تو پیٹوں، کنبے کا کنبہ، آوے کا آوا ایک رنگ میں رنگا ہوا۔"      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشاء، ١٠ )
٨ - [ کوسنے کے طور پر ]  برا چاہنا، موت چاہنا۔
 چھوڑ کر مجھ کو سسکتا تم اگر گھر جاؤ مجھے پیٹو مجھے گاڑو مرا مُردا دیکھو      ( ١٨٣٢ء، دیوانِ رند، ١١٨:١ )
٩ - (شطرنج، چوسر وغیرہ میں) گوٹ مارنا، مُہرا مارنا، مات دینا۔
"تنہا مہرے کسی دوسرے مہرے کو نہیں پیٹ سکتے۔"      ( ١٩٣٨ء، آئین اکبری، (فدا علی)، ١، ٤٦٨:١ )
١٠ - سرزنش کرنا، نصیحت کے طور پر کوئی بات کہنا۔
"مسلمانوں کا کام نہیں، یہی میں آج وعظ پیٹ رہی تھی کہ جس طرح ہو ایمان درست کرو۔"      ( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ٩٢ )
١١ - کسی کے ماتم میں سر پیٹنا یا سینہ کوٹنا۔
 کیا اتحاد ہے وہ پیٹا جو گاڑ کر مدفن میں ہو گیا ہے ہمارا بدن کبود      ( ١٨٣٢ء، ناسخ، دیوان، ٦١:٢ )
١٢ - سختی جھیلنا، زحمت اٹھانا۔
"ہر چند دلارام، مہ جبیں کو ہٹالے گئی ہے لیکن مہ جبیں بھی دور نہ جائے گی، اپنے وارث کے انتظار میں پیٹ رہی ہو گی۔"      ( ١٨٩٢ء، طلسم ہوشربا، ٢٢:٦ )