چسکا

( چَسْکا )
{ چَس + کا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چش  چَسْکا

سنسکرت زبان کے لفظ 'چست' سے ماخوذ اردو میں 'چسکا' بنا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٧٩ء میں "دیوان شاہ سلطان ثانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر )
واحد غیر ندائی   : چَسْکے [چَس + کے]
جمع   : چَسْکے [چَس + کے]
جمع غیر ندائی   : چَسْکوں [چَس + کوں (و مجہول)]
١ - مزہ، چاٹ۔
"یار باشی میں تو وہ مزا ہے کہ جہاں اس کا چسکا پڑا پھر نہیں چھوٹتا"      ( ١٩٠٠ء، شریف زادہ، ١٢١ )
٢ - لت، عادت۔
"ملا صاحب کو مانگنے کا ایسا زبردست چسکا پڑ گیا تھا کہ ہر چند چاہا کہ نہ مانگوں مگر باز نہ رہ سکے"      ( ١٩٢٥ء، حکایات لطفیہ، ٧١:١ )
٣ - ذوق، شوق؛ لطف۔
"تحقیق کا چسکا شروع ہی سے تھا"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٣٥٣ )