راج[1]

( راج[1] )
{ راج }
( سنسکرت )

تفصیلات


راجیہ  راج

اردو میں سنسکرت زبان کے لفظ 'راجیہ' سے ماخوذ ہے اور بطور اسم نکرہ مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء، میں "قلی قطب شاہ" کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - فرماں روائی، حکومت، اقتدار، عملداری۔
"لاہور کی شاہی قلعہ پر انگریزی راج قائم ہونے کی تاریخ ١٨٤٩ء، ہے"      ( ١٩٨٥ء، پنجاب کا مقدمہ، ١٦ )
٢ - کسی مملکت کا بادشاہ، فرماں روا نیز ریاست کا والی یا نواب۔
 کہاشاہ توں دین کا راج ہے توں سلطانِ عالم کا سرتاج ہے      ( ١٦٣٥ء، محی الدین نامہ، ٧ )
٣ - دور دورہ، عروج، بول بالا، غلبہ۔
"ہر طرف خاموشی اور سناٹے کا راج تھا"      ( ١٩٨٧ء، اور لائن کٹ گئی، ١٢ )
٤ - مملکت، سلطنت۔
 ہمارا کشورِ دل بھی تو ہے تمہار راج تمہارے تحتِ حکومت سے سب ہمارا راج      ( ١٨٦٦ء، ہربز، دیوان؛ ٣٨ )
٥ - ریاست جو کسی مملکت کا حصہ ہو۔
 سنگم کا اب بھی منظر پہلا سا ہے دل آرا پریاگ راج میں ہے فردوس کا نظارا      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٣٠ )
٦ - تخت، مرتبے کی بلندی، اوج، عروج۔
 ہیں چالیں نئی اس کی ہر دم بدم کوئی راج پر ہو کوئی ہو عدم      ( ١٧٩٤ء، جنگ نامہ دو جوڑا، ١ )
٧ - جاگِیر۔
"راج کی اہم ترین خصوصیت اولاً یہ ہے کہ وہ ناقابلِ تقسیم ہوتا ہے"      ( ١٩٤١ء، قانون و راجِ ہنود، د، ٧٦:١ )
٨ - نظم و نسق (امور عامہ حکومت کا)، انتظام، بندوبست۔ (پلیٹس)
"سندھ میں گونر راج کا مطالبہ کرنے والے لوگ ڈرگ مافیا کے ایجنٹ ہیں"      ( ١٩٨٨ء، روزنامہ جنگ، ٢٠ مارچ، ١ )
٩ - خود مختاری، اختیار، عمل دخل۔
 کیوں نہ ہو ان کو خرمنوں پہ راج تحت میں اُن کے لیے تمام اناج      ( ١٧٧٥ء، مشویاتِ حسن، ١٦٥:١ )
١٠ - وہ عیش و آرام یا ٹھاٹ باٹ جو اختیار ر و حق و تصوف کے ساتھ ہو، شاہی اختیارات۔
 ہے کوئی غنی تو کوئی محتاج بے گھر ہے کوئی کسی کے گھر راج      ( ١٩١١ء، کلیاتِ اسماعیل، ٥ )
١١ - کوئی بڑی چیز، کسی قسم کی سب سے بڑی چیز۔ (شبد ساگر، جامع اللغات)
  • حکومت
  • سلطنت
  • بادشاہت
  • غلبہ
  • دور دورہ
  • بڑا
  • کبیر
  • کلاں
  • احتیار
  • طاقت
  • royalty
  • sovereignty
  • reign;  kingdom
  • realm
  • state
  • dominion
  • empire
  • monarchy
  • government;  administration or exercise of government
  • rule
  • sway
  • sovereignty