ٹوکنا

( ٹوکْنا )
{ ٹوک (واؤ مجہول) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


ترکیا  ٹوک  ٹوکْنا

سنسکرت کے اصل لفظ 'ترکیا' سے ماخوذ اردو زبان میں 'ٹوک' مستعمل ہے اس کے ساتھ اردو لاحقۂ مصدر 'نا' لگنے سے 'ٹوکنا' بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ ١٧٣٩ء میں "کلیاتِ سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - تعرض کرنا، مزاحمت کرنا، روکنا۔
"سوارنے اسے ٹوکا اور پوچھا کہ کہاں جاتے ہو۔"      ( ١٩٣٥ء، عبرت نامۂ اندلس، ٣٦ )
٢ - اعتراض کرنا، نکتہ چینی کرنا۔
"ایک بڑھیا نے فاروق اعظم کو سر منبر ٹوک دیا تھا۔"    ( ١٩١٢ء، مقالات شبلی، ١٥٦:٨ )
٣ - غلطی بتانا۔
"جہاں طالب علم نے غلطی کی فوراً ٹوکا۔"    ( ١٩٢٨ء، باقر علی، کانا بانی، ١٥ )
٤ - کسی کو جاتے وقت پیچھے سے آواز دینا، آنے جانے والوں سے پوچھنا۔
"دو ایک اکّہ والوں نے انہیں بھی ٹوکا، "منشی صاحب ادھر آئیے، حضرت گنج چلیے گا?"      ( ١٩٠٠ء، شریف زادہ، ١٢ )
٥ - ایک حریف کا دوسرے حریف کو مقابلے کی دعوت دینا، للکارنا۔
"قد و قامت مختصر ہے، کشتی میں مار لوں گا یہ سوچ کہ ٹوکتا ہوا بڑھا۔"    ( ١٩٠١ء، قمر، طلسم ہوشربا، ٨:٧ )
٦ - موازنہ یا مقابلہ کا موضوع بنانا، مقابلے پر لانا۔
"دنیا بھر میں ایسی کسی عمارت کو بھی روضۂ ممتاز محل کے مقابلے کے لیے ٹوک سکتے ہیں۔"    ( ١٩٣٢ء، اسلامی فن تعمیر، ١٧٠ )
٧ - متنبہ کرنا، سرزنش کرنا۔
"اس خاموشی پر ان کو قرآن نے بار بار ٹوکا۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبی، ٢٤١:٤ )
٨ - نظر لگانا، ٹوک لگانا۔
 چشم بد دور نہ ٹوکو مرا رونا کوئی شاخ دل اپنی تو آنسو سے ہری رہتی ہے      ( ١٨١٨ء، اظفری، دیوان، ٦٥ )
٩ - رشک کرنا، حسد کرنا۔ (جامع اللغات)
  • روکْنا
  • to question
  • interrogate
  • challenge
  • accost;  to sound
  • test
  • prove;  to check
  • stop
  • hinder
  • prevent
  • obstruct;  to take exception to
  • to object to
  • call in question;  to censure
  • blame;  to envy;  to regard with an evil eye