فعل لازم
١ - شکستہ ہونا، ٹکڑے ہونا، ریزہ ریزہ ہونا۔
بہت جام مئے گلرنگ تیرے ہاتھ سے ٹوٹے بہت لالہ رخوں کے لعل لب تو نے کیے جھوٹے
( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٦٩ )
٢ - کسی پر ہجوم کرنا، تنہا یا مل کر حملہ کرنا، دھاوا بولنا۔
تحمل تا کجا ٹوٹا ہے اک لشکر مصیبت کا مدد یا رب قدم اب صبر کی منزل سے اٹھتا ہے
( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٧٥٠ )
٣ - (بے اختیار) گرنا، جھکنا، زور شور سے مائل ہونا۔
"ایک خلقت ٹوٹی اور اپنے شہزادے کو شہر کے ناکے تک پہنچا آئی۔"
( ١٩٣٤ء، خیال (نصیر حسین)، داستان عجم، ١٩ )
٤ - جھپٹنا۔
"ایک پنجہ ہوا سے باز شکاری کی طرح ٹوٹا۔"
( ١٨٧٧ء، طلسم گوہر بار، ١٨٢ )
٥ - علیحدہ ہونا، جدا ہونا، اکھڑنا۔
"دہلی کا ٹوٹا ہوا مجمع بھی اسی دربار میں فروغ حاصل کر رہا تھا۔"
( ١٩٠٨ء، 'مخزن' اکتوبر، ٤٩ )
٦ - گواہ کا فریق مخالف سے ساز باز کرنا، جرح میں بگڑ جانا، خلاف ہو جانا، گواہ کا بیان سے پھر جانا۔
"مرزا کے کونسلی نے بہت زور دیا، جرح کے سوالات بہت ہی سخت کیے مگر ایک گواہ نہ ٹوٹا۔"
( ١٩٠٠ء )
٧ - رفاقت سے علیحدگی اختیار کرنا، ہم خیالی ترک کرنا۔
"شبلی گو آج کل ہم سے ٹوٹ کر وقف اغیار ہو رہے ہیں تاہم روابط سابقہ کی بنا پر یہ قطعاً ہماری چیز ہیں۔"
( ١٩٠٦ء، افادات مہدی، ٩٧ )
٨ - کم ہونا، تہ نکل آنا، (پانی کا) سطح سے گر جانا۔
کوچۂ یار کی زینت ہے مری چشم پر آب رونق باغ کہاں جب چہ گلشن ٹوٹے
( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ١٦١ )
٩ - توڑا ہونا، کمی ہونا۔
"میں اس کا ذمہ دار ہوں گا کہ حوض لباب رہے اور پانی ٹوٹنے نہ پائے۔"
( ١٩٧٣ء، جہان دانش، ٢٥٢ )
١٠ - نہر یا نالی کے اندر سے باہر نکل جانا، پھوٹنا، جیسے نہر کا پانی ٹوٹنا۔ (نوراللغات)
١١ - محروم ہو جانا۔
رزق سے محروم رازق نے نہ رکھا شکر ہے گوشت پر اپنے گرے ٹوٹے جو ہم خوراک سے
( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٠٤ )
١٢ - ناتواں ہونا، مضمحل ہونا، کمزور ہو جانا، بیماری سے ٹوٹ کر رہ جانا۔ (نوراللغات؛ فرہنگ آصفیہ)
١٣ - مفلوک ہو جانا، مفلس ہو جانا، تنگ دست ہونا۔(فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
١٤ - اعضا شکنی ہونا، جوڑوں میں درد ہونا۔ (بدن وغیرہ کے ساتھ)
آنا جمائیوں کا بدن کا وہ ٹوٹنا دشوار ایسی شکل میں ہے تیرا چھوٹنا
( ١٩٢٠ء، لخت جگر، ٤٣٠:٢ )
١٥ - پھل اترنا، جیسے آم ٹوٹنا، شہتوت ٹوٹنا؛ بقایا میں پڑنا، خوردہ ہو جانا، ریزگاری میں تبدیل ہو جانا۔ (نوراللغات؛ فرہنگ آصفیہ)
١٦ - نازل ہونا، واقع ہونا، پڑنا (آفت یا غضب وغیرہ)۔
کیسے کچھ جور نہ کم بخت پہ ٹوٹے ہوں گے آہ وہ دل کہ جسے حوصلۂ داد نہ ہو۔
( ١٩٦٢ء، ضیائے سخن، ١١٣ )
١٧ - تباہ ہونا، برباد ہونا، مٹ جانا، ختم ہو جانا۔
"جس وقت لوح طلسمی مل جائے گی اس وقت مرحلے ٹوٹیں گے پھر خداوند بھاگ کر کہاں جاوینگے۔"
( ١٩٠١ء،طلسم نوخیز جمشیدی، ٢٤٥:٢ )
١٨ - تعلق باقی نہ رہنا، رشتہ منقطع ہونا، کسی کی رفاقت سے علیحدہ ہو جانا، (دوستی وغیرہ کے ساتھ)۔
"اچھے اچھے گہرے دوستوں کی مدۃ العمر کی دوستیاں اس سفر میں ٹوٹتے دیکھی ہیں۔"
( ١٩٣٠ء، سفرحجاز، عبدالماجد، ٢٩ )
١٩ - سلسلہ منقطع ہو جانا، (سانس وغیرہ) جاری نہ رہنا۔
خیر ہو ہم عاشقوں کی عشق ہے دریائے قہر ٹوٹنا ہے توڑ کے پانی میں دم پیراک کا
( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١١ )
٢٠ - بے ترتیب ہونا، آگے پیچھے ہونا، غیر مربوط ہو جانا، باطل ہو جانا (کلیہ، نظریہ تحریر وغیرہ کا)۔
"اتنے بڑے علم کے لیے چار ورق کا قاعدہ اور وہ بھی ایسا سڑیل اور غیر مسلسل کہ ہر قاعدہ کلیہ دس سطر کے بعد ٹوٹ جاتا ہے۔"
( ١٨٨٧ء، خیالات آزاد، ٢١٧ )
٢١ - کم ہونا (قیمت وغیرہ کا)۔
جنس دل کم ہوئی ہر طرح کا سودا ٹوٹا نرخ بھی اب سر بازار کچھ اپنا ٹوٹا
( ١٨٦١ء، کلیات اختر، ٩١٣ )
٢٢ - [ مجازا ] (کمر وغیرہ کا) خمیدہ ہو جانا، جھک جانا۔
بھائی وہ مر چکا ہے کہ تھا جس کے دم سے گھر سیدھی ابھی ہوئی نہیں ٹوٹی ہوئی کمر
( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٣٨:١ )
٢٣ - (لیت و لعل)، قسم بھرم وغیرہ) اٹھ جانا، قائم نہ رہنا۔
تراب اس کو غنیمت جان جو رسوا ہوا جگ میں محبت میں ہوا فانی ترا چون و چرا ٹوٹا
( ١٨٥١ء، تراب، کلیات، ٤٤ )
٢٤ - موقوف ہونا، ختم ہونا۔
"اس نے کہا مجھے تپ ہے وہ تو ٹوٹ گئی مگر ابھی گردن میں درد باقی ہے۔"
( ١٩٢٥ء، حکایات لطیفہ، ٤٧:١ )
٢٥ - بند ہو جانا، ختم ہو جانا۔
"بک ڈپو ٹوٹا تو مدارس کے انسپکٹر کے عہدے پر مقرر ہوئے۔"
( ١٩٣٣ء، مرحوم دہلی کالج، ١٦٦ )
٢٦ - گھٹنا، کم ہونا۔
"اس کے بعد مجمع بتدریج ٹوٹتا گیا اور بالآخر منتشر ہو گیا۔"
( ١٩٢٥ء، غدر کی صبح و شام، ٢٥٢ )
٢٧ - انبوہ کثیر ہونا، مجمع جمع ہونا۔
"ایک خلقت ٹوٹی اور اپنے شہزادے کو شہر کے ناکے تک پہنچا آئی۔"
( ١٩٣٤ء، خیال (نصیر حسین)، داستان عجم، ١٩ )
٢٨ - منتشر ہونا، تتربتر ہو جانا۔
ہو مقابل اس صف مژگاں سے ہے کس کا جگر پلٹنیں ٹوٹیں جو یہ لشکر صف آرا ہو گیا
( ١٨٥٤ء، گلستان سخن، ٧ )
٢٩ - وقت گزر جانا، مدت کم ہونا۔
"جب رات خاصی ٹوٹ گئی اور وہ جاگا تو بے موسمی بارش ہو رہی تھی۔"
( ١٩٦٢ء، آفت کا ٹکڑا، ٢٨٠ )
٣٠ - (روزہ، وضو) فاسد ہو جانا۔
شیخ صاحب کی نماز سحری کو ہے سلام حسن نیت سے مصلے پہ وضو ٹوٹ گیا
( ١٨٣٨ء، نصیر، چمنستان سخن، ١١ )
٣١ - ناموزوں ہونا، شعر میں وزن نہ پایا جانا۔ (وزن شعر کے ساتھ)۔
"عین گرتا ہے، وزن ٹوٹتا ہے۔"
( ١٩٣٣ء، نظم طباطبائی مقدمہ، یب )
٣٢ - موت آنا، مرنا جیسے ٹوٹی کی بوٹی نہیں؛ (دل کے ساتھ) ناامید ہو جانا؛ (کر کے ساتھ) ناامید ہو جانا۔ حوصلہ نہ رہنا؛ لڑکا مر جانا، (بازو کے ساتھ) بھائی مر جانا۔ (جامع اللغات؛ فرہنگ آصفیہ)
٣٣ - (ہمت کے ساتھ) حوصلہ نہ رہنا، جرات نہ رہنا۔
جیتا رہے وہ جس نے مجھے مار کے چھوڑا میں آپ سے ٹوٹا نہیں خود یار نے توڑا
( ١٨٥٨ء، تراب، کلیات، ٤٣ )