ٹوکرا

( ٹوکْرا )
{ ٹوک (واؤ مجہول) + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


ستوک+ر+کہ  ٹوکْرا

سنسکرت کے اصل لفظ 'ستوک + ر + کہ' سے ماخوذ اردو زبان میں 'ٹوکرا' مستعمل ہے۔ اردو میں اصل معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٢١ء میں "خالق باری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ٹوکْرے [ٹوک (واؤ مجہول) + رے]
جمع   : ٹوکْرے [ٹوک (واؤ مجہول) + رے]
جمع غیر ندائی   : ٹوکْروں [ٹوک (واؤ مجہول) + روں (واؤ مجہول)]
١ - بانس یا جھاؤ وغیرہ کا بنایا ہوا ظرف، جھابا، جھلی، جھلا، چھبڑا، ڈلا، سبد۔
"اس کے تنے سے ٹوکرے اور چلمن بنائی جاتی۔"      ( ١٩٠٧ء، مصرف جنگلات، ٢٥٣ )
٢ - ایک قسم کی چھوٹی سی کشتی، ڈونگا، بجرا۔
"دریاؤں کے پار اترنے میں ٹوکرے کشتیوں سے زیادہ بے خطر ہوتے ہیں۔"      ( ١٨٩٤ء، مفتوح فاتح، ٩١ )
٣ - [ کنایۃ ]  بوجھ جیسے ذلت کا ٹوکرا یا بطور طنز عزت یا علمیت وغیرہ کا ٹوکرا۔
 کیوں عبث پھرتا ہے ہم رندوں کے سر پر رات دن ٹوکرا بدنامیوں کا آسماں ہو جائے گا      ( ١٨٨٤ء، قدر (نورالغات) )
٤ - پچیسی کی ہار یا ہاری ہوئی بازی۔ (جامع اللغات؛ پلیٹس)
  • چَھبْڑا
  • a large basket (without a lid);  a wicker ferry-boat covered and sewn over with leather;  a coracle;  a lost game