پیچ در پیچ

( پیچ دَر پیچ )
{ پیچ (ی مجہول) + در + پیچ (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی اسم 'پیچ' کے ساتھ 'در' بطور حرفِ جار لگا کر فارسی اسم 'پیچ' کی تکرار سے مرکبِ توصیفی بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٣٩ء کو "کلیاتِ سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - نہایت پیچیدہ، الجھا ہوا۔
"اختلافی پہلوؤں کی گُھتیاں اس قدر پیچ در پیچ ہیں کہ ان کا سلجھانا ناممکن معلوم ہوتا ہے"      ( ١٩٣٤ء، آدمی اور مشین، ٢٨ )
٢ - ٹیڑھا میڑھا (راستہ)، پیچیدہ، بل کھایا ہوا، پیچ دار۔
"قصرِ حکومت کے راستے ایسے پیچ در پیچ اور اس میں اتنی بھول بھلیاں ہیں کہ ان میں داخل ہو کر نکل آنا بڑے شاطر کا کام ہے۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٣٠٠ )
٣ - نہایت مشکل، بڑا کٹھن۔
 طریقِ عشق بے مرشد نہ ہوطے کہ ہے یہ رہ نہایت پیچ در پیچ      ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ٢٠ )
٤ - مبہم، گنجلک۔
"تعجب ہوتا ہے کہ . ایسے پیچ در پیچ اور نازک مطالب کو یوں سلجھا کر بیان کیا ہوگا"      ( ١٩٠١ء، حیاتِ جاوید، ٤٣٥:٢ )
  • coil within coil;  complicated;  intricate;  entangled complex