چکرانا

( چَکَرانا )
{ چَکَرا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چکر  چَکَرانا

سنسکرت سے ماخوذ لفظ'چکر' کے ساتھ 'انا' لاحقۂ مصدر لگانے سے اردو میں فعل لازم 'چکرانا' بنا۔ ١٨٤٧ء کو "عجائبات فرنگ" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - پریشان ہونا، الجھن میں پڑنا، فکرمند ہونا۔
 پہلے پہل تو ہم سے بھی کچھ بن نہیں پایا منی بھی چکرائی میں بھی چکرایا      ( ١٩٨٥ء، پھول کھلے ہیں رنگ برنگے، ٢٠ )
٢ - [ پتنگ بازی ]  پتنگ کا سدھ نہ رہنا، بل کھانا، گھومنا۔
"تکلیں لڑیں تو ایسی کہ چکراتی چکراتی مقبرے سے آگے نکل گئیں۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١١:٢ )
٣ - (سرکا) چکرانا، گھومنا، گھبراہٹ محسوس کرنا، گھمیری آنا، تیورانا؛ (محور یا مرکز پر) گھومنا، گردش کرنا۔
"غرفوں سے جو جھانکا گردوں کے افواج کی نبضیں تیز ہوئیں حلقوں میں جو دوڑا بادل کے کہسار کا سر چکرانے لگا۔"      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٩١ )
٤ - چکر کھانا، چکر میں آنا، چکر میں ہونا؛ دوری گردش کرنا۔
"تنکے ننھے ننھے بگولوں میں چکرا رہے تھے۔"      ( ١٩٧٣ء، کپاس کا پھول، ١٧٣ )
فعل متعدی
١ - چکر دینا، گھمانا۔
"کشتی چلانے کی بلی چھین لی اور کشتی کو چکرایا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٣٥:٦ )