پیدل

( پَیدَل )
{ پَے (ی لین) + دَل }
( ہندی )

تفصیلات


پیدل  پَیدَل

ہندی سے اردو میں داخل ہوا اور اپنے اصل معنی میں بطور متعلق فعل صفت اور گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے سب سے پہلے ١٧١٨ء کو "دیوانِ آبرو (قلمی نسخہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - پاپیادہ چلنے والا آدمی، وہ آدمی جو سوار نہ ہو۔
 شاخ پر پھول ہیں جنبش میں زمیں پر سنبل سب ہوا کھاتے ہیں گلشن میں سوار اور پیدل      ( ١٩٠٥ء، محسن، کلیات، ١٠٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - پیادہ فوج کا سپاہی۔
"اس کے ساتھ چار مسلح پیدل سپاہی تھے"      ( ١٩٢٦ء، شرر، درگیشں نندی، ١٧٠ )
٢ - شطرنج کا سب سے چھوٹا مہرہ جو ہمیشہ ایک گھر سیدھا چلتا ہے اور آڑا مارتا ہے، پیادہ۔
"جو کنیز پیدل بنی ہوئی ہے، اشارہ پاتے ہی چھن چھن کرتی چلتی ہے اور اگلے خانے میں جا کھڑی ہوتی ہے۔"      ( ١٩٢٢ء، انارکلی، ١٠٦ )
متعلق فعل
١ - پاپیادہ، سوار کا نقیض۔
"حج کی منادی کردے تو لوگ ہر طرف سے دوڑ آئیں گے، کچھ پیدل اور کچھ دہلی اونٹنیوں پر"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ١٢١:٢ )
  • foot soldier;  infantry