ٹولا

( ٹولا )
{ ٹو (واؤ مجہول) + لا }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان میں بطور اسم مستعمل ہے اردو میں ہندی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصل معنی میں ہی عربی رسم الخط کے ساتھ ہی اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٦٢٥ء میں "سیف الملوک، و بدیع الجمال" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم جمع ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ٹولے [ٹو (واؤ مجہول) + لے]
جمع   : ٹولے [ٹو (واؤ مجہول) + لے]
جمع غیر ندائی   : ٹولوں [ٹو (واؤ مجہول) + لوں (واؤ مجہول)]
١ - گروہ، جتھا۔
"مولانا نے کہا کہ اب مقابلہ پر پنجابی ٹولی کے ساتھ بنگالی ٹولا بھی آگیا"      ( ١٩٢٦ء، محمد علی، ٣٩٣:١ )
٢ - کوچہ، محلہ، جس میں تقریباً ایک ہی قسم کے لوگ رہتے ہوں۔
"شہر مذکور میں کئی سرائیں اور بہت سے کڑے ٹولے محلے آباد ہیں"     "چماروں کے ٹولے میں ایک آدمی بھی نہ تھا"      ( ١٨٠٥ء، آرائش محفل، افسوس، ١١٤ )( ١٩٣٦ء، پریم چند، زاد راہ، ٤ )
٣ - سنگ ریزہ، روڑا، بڑی کوڑی (نوراللغات؛ جامع اللغات)
  • a quarter or district of a town;  a part of a town inhabited by men of one class
  • sect or trade;  a set (of anything);  a complete assortment;  a piece of rock
  • a stone
  • a large pebble;  a knock
  • stroke