چلا

( چِلّا )
{ چِل + لا }
( فارسی )

تفصیلات


چہل  چِل  چِلّا

فارسی زبان کے لفظ'چہل' کی تخفیف اردو میں 'چل' بنا اور الف بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'چلا' بنا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٥ء کو "فرسنامۂ رنگین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چِلّے [چِل + لے]
جمع   : چِلّے [چِل + لے]
جمع غیر ندائی   : چِلّوں [چِل + لوں (و مجہول)]
١ - چالیس دن کی شدت، چالیس دن کا عرصہ، چالیس دن کی گوشہ نشینی اور وظیفہ خوانی۔
"بعد ولادت چلے تک ایام رضاعت میں بھی ہم بستری نقصان دہ ہے۔"      ( ١٩٢٣ء، عصائے پیری، ١٤٨ )
٢ - کلاوہ یا ڈورا، جو حصول مطلب کے واسطے کسی ولی اللہ کے مزار مقدس درخت یا عَلَم و تعزیہ وغیرہ پر عوام باندھا کرتے ہیں۔ (نوراللغات)
٣ - سخت جاڑا (جو بیس دن پوس اور بیس دن ماگھ میں ہوتا ہے)۔
"ایک دفعہ . جب چلے کی برف پڑ رہی تھی . اس نے پرارتھنا کی۔"      ( ١٩٦٢ء، آفت کا ٹکڑا، ١٩٦ )