چکما

( چَکْما )
{ چَکْما }
( سنسکرت )

تفصیلات


چَکرن  چَکْما

سنسکرت زبان کے لفظ'چکرن' کی تبدیل شدہ شکل اردو میں 'چکما' بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٨٧ء کو "جام سرشار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چَکْمے [چَک + مے]
جمع   : چَکْمے [چَک + مے]
جمع غیر ندائی   : چَکْموں [چَک + موں (و مجہول)]
١ - جھانسا فریب، دھوکا، دم۔
"بے پرکی لگا کر ایسا اڑاتے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اس کے باوجود سب ہی تو ان کے چکمے میں آ جاتے۔"      ( ١٩٨٤ء، کیا قافلہ جاتا ہے، ٢٥١ )
٢ - نقصان، ضرر۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
٣ - گنجفہ کا ایک کھیل، جب حکم کے پتے کو نہیں پھینکتے تو وہ پتا چور ہو جاتا ہے۔
"پھر آؤ بھئی چکما ہی اڑے یا چوسر ہی کی دو ایک بازیاں ہو جائیں۔"      ( ١٨٨٧ء، جام سرشار، ٨٢ )
  • cheating
  • trickery
  • trick;  loss
  • injury
  • damage