چکنا گھڑا

( چِکْنا گَھڑا )
{ چِک + نا + گَھڑا }

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ لفظ'چکنا' کے ساتھ ہندی سے ماخوذ اسم 'گھڑا' لگانے سے اردو میں مرکب'چکنا گھڑا' بنا۔ اس ترکیب میں 'گھڑا' موصوف اور 'چکنا' اس کی صفت ہے اس طرح یہ مرکب توصیفی بنا۔ ١٨١٠ء کو "فسانہ آزاد" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ کنایۃ ]  وہ گھڑا یا برتن جو روغن سے تر ہو، جس پر پانی کی بوند پڑے تو نہ ٹھہرے؛ بے حیا، بے غیرت، بے حس (جس پر کسی چیز کا اثر نہ ہو)۔
 نہیں ان کو کچھ شرم لاحول قوم یہ ملحد تو چکنے گھڑے ہو گئے      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٣٨٢:١ )