آکل

( آکِل )
{ آ + کِل }
( عربی )

تفصیلات


اکل  آکِل

عربی زبان سے ماخوذ ہے۔ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل مشتق ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٤٦ء میں "آثار محشر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : آکِلَہ [آ+کِلَہ]
جمع استثنائی   : آکِلین [آ + کِلین]
جمع غیر ندائی   : آکِلوں [آ + کِلوں (واؤ مجہول)]
١ - کھانے والا، نوش کرنے والا۔
"ایک خاص باب میں انھوں نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ باری تعالٰی کے سوا ہر ہستی آکل و ماکول ہے۔"      ( ١٩١٨ء، مکاتیب اقبال، ٦٥:٢ )
  • کھانے والا