تلخ نوائی

( تَلْخ نَوائی )
{ تَلْخ + نَوا + ای }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم صفت 'تَلْخ' کے ساتھ 'نَوا' فارسی ہی سے اسم لگایا گیا اس طرح یہ مرکب توصیفی بنا۔ جس کے آخر پر 'ئی' بطور لاحقۂ کیفیت لگایا گیا ہے۔ اردو میں ١٨٦٩ء کو غالب کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ناگوار باتیں، جلی کٹی باتیں؛ خراب آواز ہونا۔
"موہن نے بھی عاجز ہو کر ان تلخ نوائیوں کی پروا کرنا چھوڑ دیا ہے۔"      ( ١٩٣٥ء، دودھ کی قیمت، ٤٠ )
  • سَخْت زَبان
  • utterance of unpalatable truths