آکا

( آکا )
{ آ + کا }
( ترکی )

تفصیلات


ترکی زبان سے ماخوذ ہے۔ اردو میں اپنی اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے سب سے پہلے ١٨٤٥ء میں "حکایت سخن سنج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : آکاؤں [آ + کا + اوں (و مجہول)]
١ - بھائی (بیشتر بڑا بھائی)۔
"میری قسمت میں وہ خوشی نہ تھی جو آپ کو . اور منجھلے آکا صاحب کو بالمشافہ نظم سنانے سے حاصل ہوتی ہے۔"      ( ١٩٠٣ء، مکتوبات حالی، ٢٩:١ )
٢ - "مغل یا ولایتی پٹھان یا سپاہی جس کا تیور اور لہجہ طبعاً سخت اور کرخت ہوتا ہے۔"
"ساتویں نمبر پر لفنگی اردو ہے جسے آکا بھائیوں کی لٹھ مار کڑاکے دار زبان کہو۔"      ( ١٩١٥ء، مرقع زبان و بیان دہلی، ١٤ )
٣ - مخاطب کرنے کا کلمہ جیسے میاں یا دوست وغیرہ (بیشتر بانکوں اور سپاہیوں یا پہلوانوں کے لیے مستعمل)۔
"آکا یہ کیا? تم تو دو دو پیسے کی صدا لگا رہے تھے۔"      ( ١٩٤٨ء، دساتی، جولائی، ٤٨ )
  • (lit.) "Elder brother";  brother;  friend
  • dear friend;  dear sir